قازقستان میں اِن دنوں حکومت مخالف مظاہرے شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور احتجاج کا دائرہ اس وسط ایشیائی ملک کے کئی اہم شہروں تک پھیل گیا ہے۔ بدھ کو مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ قازقستان کے صدر قاسم جومارت توکایوف نے کہا ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف 'سخت اقدام' اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
پانچ جنوری کو رات گئے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ '' بطور صدر میں اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کروں گا، کیوں کہ یہ معاملہ قازقستان کی سالمیت کا ہے۔''
اس سے قبل ملک کے کئی شہروں میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور متعدد سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کیا گیا اور پولیس اور فوجی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپوں کی اطلاعات بھی ہیں۔ یہ ہنگامہ آرائی تیل کی قیمتوں میں یکایک اضافے کے معاملے پر بھڑک اٹھی ہے، جب لوگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ پہلے ہی بدعنوانی، بے روزگاری اور کم اجرت کے معاملے پر لوگ بپھرے ہوئے تھے۔
دریں اثنا، وائٹ ہاؤس اور اقوام متحدہ نے بدھ کے روز قزاق حکام سے تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے، جہاں شہری حقوق کے اظہار کے لیے ہنگامہ آرائی سے کام لیا جا رہا ہے، جب کہ احتجاج کے بعد حکومت نے ہنگامی صورت حال کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا ہے کہ ''اقوام متحدہ نے پر امن رہنے کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ احتجاج کے اظہار کے لیے پرامن طریقہ کار اپنائیں، جب کہ حکام کو تحمل سے کام لینا چاہیے''۔
ادھر قازقستان کے سب سے بڑے شہر، الماتی میں بدھ کو سینکڑوں مظاہرین سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے نظر آئے، جن میں سے کئی ایک کے پاس ربڑ کی نوک والی لاٹھیاں، ڈنڈے اور ڈھالیں تھیں۔ پانچ جنوری کو مظاہرین نے شہر کے میئر کے دفتر پر دھاوا بول دیا، جس کے بعد پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے برسائے، اسٹن گرنیڈس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کے بعد مظاہریں نے عمارت کو آگ لگا دی۔
الماتی کی پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین کا تعلق ''شدت پسندوں اور قدامت پسندوں''کے ایک گروہ سے ہے۔ ذرائع ابلاغ کی کچھ خبروں کے مطابق، مظاہرین شہر کے جنوب مشرقی علاقے میں واقع صدارتی رہائش گاہ کے اندر داخل ہو چکے ہیں، اور خبروں کے مطابق حکمراں 'نور اوتان پارٹی' کے صدر دفتر کے احاطے سے دھواں اٹھ رہا ہے۔
ذرائع ابلاغ نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ قومی سطح کے اس اقدام کے نتیجے میں انٹرنیٹ سروس بند ہو گئی ہے، جب کہ ملک میں 'آر ایف اِی/آر ایل' سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے بتایا ہے کہ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون بھی کام نہیں کر رہے۔
اس سے قبل پانچ جنوری ہی کو احتجاجی مظاہروں سے نمٹنے کے لیے توکایوف نے حکومت کو برطرف کر دیا تھا اور قازقستان کے کئی علاقوں میں ہنگامی صورت حال کا نفاذ کر دیا تھا، جس میں الماتی اور دارالحکومت نور سلطان شامل ہے۔
احتجاج کا آغاز تین روز قبل منگستو کے مغربی خطے سے اس وقت ہوا تھا، جب مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کے نرخوں میں یکایک اضافہ کر دیا گیا۔ یہ ملک تیل کی دولت سے مالا مال ہے، اور یہاں ایل پی جی مقبول ایندھن خیال کیا جاتا ہے۔جس کے بعد یہ احتجاج قزاقستان بھر میں پھیل گیا۔
ہنگامہ آرائی کی یہ لہر پانچ جنوری کو ملک کے شمالی شہر اکتوبے تک پھیل چکی ہے جہاں پولیس نے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے ان پر آنسو گیس کا استعمال کیا، جو علاقے کی ایک سرکاری عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہاں موجود 'آر ایف اِی/آر ایل' کے ایک نمائندے نے اطلاع دی ہے کہ کئی مظاہرین کو ٹانگوں پر چوٹیں آئی ہیں۔
اکتوبے، دھانزن اور اوزل سمیت ملک کے کئی شہروں اور قصبوں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں جہاں درجنوں افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
قازقستان کی وزارت داخلہ کے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ الماتی اور دیگر مقامات سے گزشتہ رات 200 سے زیادہ افراد کو ہنگامہ آرائی کے الزام پر گرفتار کیا گیا؛ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ وزارت داخلہ نے مزید کہا ہے کہ جھڑپوں میں کم از کم 95 پولیس اہل کار زخمی ہوئے۔
صدارتی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک فرمان میں، توکایوف نے بتایا ہے کہ پانچ جنوری کی صبح وزیر اعظم اصغر مامین اور کابینہ کا استعفیٰ قبول کر لیا گیا ہے۔
اس حکم نامے کے مطابق، اول معاون وزیر اعظم علی خان اسماعیلوف کو عبوری وزیر اعظم کے طور پر تعینات کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ نئی کابینہ کی تشکیل تک حکومت کے موجودہ ارکان اپنے فرائض بجا لاتے رہیں گے۔
امریکی سفارتی عملے کو گھروں میں رہنے کی ہدایت
قازقستان میں امریکی سفارت خانے کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر کے متعدد شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، جن کے نتیجے میں سیکیورٹی کے سخت اقدامات کا نفاذ متوقع ہے۔
بیان میں امریکی حکومت کے اہل کاروں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے علاقے کی جانب جانے سے اجتناب کیا جائے۔اعلان میں کہا گیا ہے کہ جمعرات کے روز، چھ جنوری سے الماتی کا امریکی قونصل خانہ عام لوگوں کے لیے بند کر دیا جائے گا، جب کہ دفتر کے اہل کار گھر سے کام کریں گے۔ نور سلطان میں واقع سفارت خانہ اور الماتی کے قونصل خانے کی جانب سے امریکی شہریوں کے لیے فراہم کردہ تمام خدمات اور ویزے کے تمام انٹرویوز منسوخ کر دیے گئے ہیں۔