رسائی کے لنکس

'کیلاش تہذیب معدومی کے خطرے سے دوچار'


پاکستان کے علاقے چترال وادی کی کیلاش تہذیب کی سرگرم کارکن، مصنفہ اور پاکستانی کمرشل پائیلٹ لکشن بی بی نے کہا ہے کہ پاکستان میں کیلاش تہذیب معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس تہذیب کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔

انھوں نے کہا کہ یہ تہذیب پاکستان کا خوبصورت اثاثہ ہے جو پوری دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو بہتر کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

نیویارک میں گزشتہ دنوں اولمپک ہیلنزم کو مضبوط بنانے اور کیلاش نسل کے تحفظ اور ان کی امداد کے لئے یونانی امریکیوں کے ادارے فیڈریشن آف ایسوسی ایشن لاکونین سوسائٹیز، ہیلنک سوسائٹی آف گریٹر نیویارک، ہیلنک امریکن ویمن کونسل اور سونی وطن گلگت بلتستان کے اشتراک سے بین الثقافتی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں دونوں ثقافتوں کا مشترکہ مظاہرہ بھی پیش کیا گیا۔

اس رنگا رنگ تقریب میں پاکستان اور یونان کے قونصل جنرل، معزز شخصیات اور کمیونٹی لیڈروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب میں کیلاش تہذیب پر مقالے پڑھے گئے۔ اور اس تہذیب کے تحفظ کے لئے ایک فنڈ بھی قائم کیا گیا جس میں لوگوں نے عطیات جمع کرائے۔

اس موقع پر وائس آف امریکہ سے بات چیت میں لکشن بی بی کا کہنا تھا کہ کیلاش قبیلے کے لوگوں کی تبدیلی مذہب کے نتیجے میں یہ تہذیب معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس وقت صرف تین ہزار کے قریب کیلاش اپنی تہذیب و ثقافت پر قائم ہیں۔ ان کے بقول ’’میں یہ نہیں کہوں گی کہ ان لوگوں کی جبری تبدیلی مذہب ہو رہی ہے۔ لیکن وہاں کے حالات ایسے نہیں رہے کہ لوگ اپنے تاریخی ورثے کی حفاظت کر سکیں۔ بچوں کو اپنی ثقافت سے متعلق تعلیم نہیں دی جاتی اس لیے وہ تبدیلی مذہب کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔‘‘

لکشن بی بی کا کہنا تھا کہ کیلاش ثقافت زبانی روایات پر مبنی ہے۔ ان کے والدین اور بزرگوں کے مطابق وہ سکندر اعظم کے ان فوجیوں کی اولاد ہیں جو چترال وادی میں بس گئے تھے۔ یہاں کی مقامی تہذیب سے ان کے بہترین تعلقات ہیں جن کے درمیان نہ صرف رواداری ہے بلکہ ان کی خوشیاں اور غم بھی سانجھے ہیں۔ اس کے باوجود کیلاش تہذیب اس وقت شناخت کے بحران سے دوچار سے ہے۔

لکشن بی بی جو پاکستان میں کمرشل پائلیٹ بھی رہ چکی ہیں اور انھوں نے کیلاش وادی کی ثقافت پر کتاب تحریر کی ہے جسے عالمی سطح پر کیلاش تہذیب کا تعارف ہوا۔ لکشن بی بی کہتی ہیں کہ یہ تہذیب پوری دنیا میں پاکستان کا بہترین تصور اجاگر کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس طرح کی نایاب تہذیب پوری دنیا میں نہیں اس لئے یہ پاکستان کا ایک سرمایہ ہے جس کے تحفظ کے لیے تمام پاکستانیوں کو مل کر جدوجہد کرنا گی۔

لکشن بی بی نے کیلاش بچوں کی تعلیم کے لئے اس موقع پر آن لائن نظام ’کیلاش انڈیگنوئیس سروائیول پروگرام‘ کے آغاز کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نظام سرحدوں سے ماورا مستحق بچوں کو جدید تعلیم کا موقع فراہم کرکے ان کی بقا کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے فیڈریشن آف ایسوسی ایشن آف لاکونینز سوسائٹی کے صدر ٹیمولیون کاکورس نے پاکستان اور یونانی حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ ہندوکش میں بسنے والے کیلاش تہذیب کے تحفظ کے لئے مل کر کام کریں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی اور یونانی تہذیب باہم مربوط ہے۔ دونوں تہذیبوں کے درمیان محبت کا رشتہ قائم ہے ہم مل کر اس تہذیب کے تحفظ کے لئے کام کرسکتے ہیں۔ انھوں نے یونانیوں سے اپیل کی کہ لکشن بی بی کے بحالی کے پروگرام میں تعاون کریں۔

تقریب سے خطاب میں یونانی قونصل جنرل ڈاکٹر کونسٹانلیوس کوترس نے کہا کہ کیلاش تہذیب محض ایک ثقافت نہیں بلکہ ایک سماجی طرز زندگی ہے۔ اس کا تعلق یونانی ثقافت سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ مختلف یونانی این جی اوز کیلاش لوگوں کو درپیش ثقافتی اور سیاسی چیلنجوں کا سامنا کرنے میں مدد دے رہی ہیں۔ اس اہم مسئلے کے لیے مزید تعمیری مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ کیلاش کی امداد کو مربوط کیا جاسکے۔ اور ان کی آئندہ آنے والی نسلوں کا مستقبل روشن بنایا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ یونانی یوم آزادی کی پریڈ میں کیلاش کی شرکت ہیلنزم کا نتیجہ ہے جو ایک خاص سماجی طرز زندگی کو فروغ دیتا ہے۔

تقریب سے خطاب میں سونی وطن گلگت بلتستان کے صدر نسیم گلگتی نے کہا کہ سکندر اعظم ایشیا اور افریقہ گئے جہاں انھوں نے محبت اور امن کی ثقافت ہیلنزم کو فروغ دیا۔ اور آج اس تہذیب کو جو کہ محبت اور امن کا پیغام ہے پوری دنیا بھر میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے لوگوں سے اپیل کی وہ آگے بڑھیں اور کیلاش رہنما لکشن بی بی کے پروگرام میں تعاون کریں۔

اس رنگا رنگ تقریب میں قونصل جنرل نعیم احمد چیمہ اور پاکستانی اور یونانی کمیونٹی کی اہم شخصیات موجود تھیں۔ کیلاش اور قدیم یونانی لباس میں ملبوس نوجوانوں نے اس موقع پر روایتی کیلاش اور قدیم یونانی رخص پیش کیے جس میں بے حد مماثلت پائی جاتی ہے۔

XS
SM
MD
LG