واشنگٹن —
کینیا کے صدر اوہرو کنیاٹا نے نیروبی کے شاپنگ سینٹر پر اسلامی عسکریت پسندوں کے حملے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں ملک میں سہ روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
منگل کے روز ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے، مسٹر کنیاٹا نے کہا کہ ویسٹ گیٹ شاپنگ سینٹر پر حملے میں 61 شہری اور چھ فوجی ہلاک ہوئے۔
اُنھوں نے کہا کہ پانچ شدت پسند ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ 11مشتبہ افراد کینیا کے حکام کی تحویل میں ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ملک کو ’بے تحاشہ‘ نقصان پہنچا۔ تاہم، انصاف کا بول بالا ہوا۔
کنیاٹا کےبقول، ہمارے سر سے خون بہہ رہا ہے۔ لیکن ہم جھکے نہیں۔ مجرموں نے ہمیں بے خوف پایا، جیسا کہ ہونا بھی چاہیئے تھا۔ کوئی ہمیں سر نہیں کر سکتا۔
مسٹر کنیاٹا نے کہا کہ شاپنگ مال کے تین طبقے منہدم ہوچکے ہیں، اور متعدد جانیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں، جس میں مشتبہ افراد بھی شامل ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ اِن رپورٹوں کی تصدیق نہیں کرسکتے کہ حملہ آوروں میں ایک برطانوی شخص اور کئی امریکی شہری تھے۔
اس سے قبل، کینیا کی وزیر خارجہ، آمنہ محمد نے امریکی پبلک ٹیلی ویژن ’پی بی ایس نیوز آور‘ کو بتایا کہ اس حملے میں دو یا تین صومالی یا عرب نژاد امریکی اور ایک برطانوی شہری نے حصہ لیا۔
صدر نے کہا کہ قبضہ چھڑوا لیا گیا ہے۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ تفتیشِ جرم سے متعلق ٹیمیں جائے واردات پر اب بھی موجود ہیں۔
کینیا کی پولیس اور فوج نے شاپنگ مال کو شدت پسندوں سے خالی کرانے کے سلسلے میں دو دِن سے زیادہ تگ و دو جاری رکھی۔ منگل کو نیروبی میں دِن کےوقت بھی کبھی کھبار عمارت سے گولیاں چلنے اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔
القاعدہ سے وابستہ الشباب کے شدت پسند گروپ نے، جس نے ہفتے کو ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، اس سے قبل کہا کہ جنگجو ابھی تک شاپنگ مال کے اندر لوگوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں برطانیہ، کینیڈا، چین، فرانس، گھانا، بھارت اور جنوبی کوریا کے شہری شامل ہیں۔
لوئی اوات نامی ایک خاتون ہفتے کے روز شاپنگ مال کے ایک بینک میں موجود تھیں، جب ویسٹ گیٹ سینٹر پر حملہ کیا گیا۔ اوات کے ساتھ بینک کے دیگر اہل کار چار گھنٹوں تک بینک کے اندر چھپے بیٹھے رہے، جس کے بعد گھٹنوں کے بَل چلتے ہوئے، وہ باحفاظت باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کے بقول، جو پہلی آواز اُن کے کانوں پر پڑی وہ لوگوں کی چیخ و پکار کی تھی۔ ’خلفشار سا تاری تھا۔ اس لیے، میں نے پلٹ کر دیکھا، ہر طرف لوگ دوڑ رہے تھے‘۔
’ہمیں شور سنائی دیا۔ اور ہمیں پتہ چلا کہ یہ لوگ چور نہیں ہیں۔ وہ ’اللہ اکبر‘ کے نعرے مار رہے تھے۔ کسی نے اللہ اکبر کی آواز بلند کی۔ یہی لمحہ تھا جب ہمیں پتا چلا کہ، یا خدا، یہ معاملہ کوئی دیگر ہے، چوری کی واردات نہیں ہے۔
منگل کے روز ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے، مسٹر کنیاٹا نے کہا کہ ویسٹ گیٹ شاپنگ سینٹر پر حملے میں 61 شہری اور چھ فوجی ہلاک ہوئے۔
اُنھوں نے کہا کہ پانچ شدت پسند ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ 11مشتبہ افراد کینیا کے حکام کی تحویل میں ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ملک کو ’بے تحاشہ‘ نقصان پہنچا۔ تاہم، انصاف کا بول بالا ہوا۔
کنیاٹا کےبقول، ہمارے سر سے خون بہہ رہا ہے۔ لیکن ہم جھکے نہیں۔ مجرموں نے ہمیں بے خوف پایا، جیسا کہ ہونا بھی چاہیئے تھا۔ کوئی ہمیں سر نہیں کر سکتا۔
مسٹر کنیاٹا نے کہا کہ شاپنگ مال کے تین طبقے منہدم ہوچکے ہیں، اور متعدد جانیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں، جس میں مشتبہ افراد بھی شامل ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ اِن رپورٹوں کی تصدیق نہیں کرسکتے کہ حملہ آوروں میں ایک برطانوی شخص اور کئی امریکی شہری تھے۔
اس سے قبل، کینیا کی وزیر خارجہ، آمنہ محمد نے امریکی پبلک ٹیلی ویژن ’پی بی ایس نیوز آور‘ کو بتایا کہ اس حملے میں دو یا تین صومالی یا عرب نژاد امریکی اور ایک برطانوی شہری نے حصہ لیا۔
صدر نے کہا کہ قبضہ چھڑوا لیا گیا ہے۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ تفتیشِ جرم سے متعلق ٹیمیں جائے واردات پر اب بھی موجود ہیں۔
کینیا کی پولیس اور فوج نے شاپنگ مال کو شدت پسندوں سے خالی کرانے کے سلسلے میں دو دِن سے زیادہ تگ و دو جاری رکھی۔ منگل کو نیروبی میں دِن کےوقت بھی کبھی کھبار عمارت سے گولیاں چلنے اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔
القاعدہ سے وابستہ الشباب کے شدت پسند گروپ نے، جس نے ہفتے کو ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، اس سے قبل کہا کہ جنگجو ابھی تک شاپنگ مال کے اندر لوگوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں برطانیہ، کینیڈا، چین، فرانس، گھانا، بھارت اور جنوبی کوریا کے شہری شامل ہیں۔
لوئی اوات نامی ایک خاتون ہفتے کے روز شاپنگ مال کے ایک بینک میں موجود تھیں، جب ویسٹ گیٹ سینٹر پر حملہ کیا گیا۔ اوات کے ساتھ بینک کے دیگر اہل کار چار گھنٹوں تک بینک کے اندر چھپے بیٹھے رہے، جس کے بعد گھٹنوں کے بَل چلتے ہوئے، وہ باحفاظت باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کے بقول، جو پہلی آواز اُن کے کانوں پر پڑی وہ لوگوں کی چیخ و پکار کی تھی۔ ’خلفشار سا تاری تھا۔ اس لیے، میں نے پلٹ کر دیکھا، ہر طرف لوگ دوڑ رہے تھے‘۔
’ہمیں شور سنائی دیا۔ اور ہمیں پتہ چلا کہ یہ لوگ چور نہیں ہیں۔ وہ ’اللہ اکبر‘ کے نعرے مار رہے تھے۔ کسی نے اللہ اکبر کی آواز بلند کی۔ یہی لمحہ تھا جب ہمیں پتا چلا کہ، یا خدا، یہ معاملہ کوئی دیگر ہے، چوری کی واردات نہیں ہے۔