کینیا میں اتوار کو ایسٹر کے موقع پر مسیحی رہنماؤں اپنے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی برادری کا تحفظ کریں۔
گزشتہ جمعرات کو صومالی سرحد کے قریب گارسیا یونیورسٹی پر الشباب کے شدت پسندوں کے ہلاکت خیز حملے میں مرنے والوں کی یاد ایسٹر کی دعائیہ تقاریب میں غالب رہی اور لوگ اس تہوار پر بھی خاصے افسردہ دکھائی دیے۔
اس حملے میں 148 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں اکثریت مسیحیوں کی بتائی جاتی ہے۔
کینیا کے صدر اوہرو کینیاٹا نے بھی اپنے عوام سے متحدہ رہنے کی اپیل کی ہے۔
قوم سے اپنے براہ راست نشر ہونے والے خطاب میں کینیاٹا نے تین روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے کینیا کے شہریوں سے ملک کے "امن و استحکام" کی حفاظت کرنے کی درخواست کی۔
"میں کینیا کے ہر شہری، ہر چرچ اور ہر مقامی رہنما سے درخواست کروں گا کہ وہ اتحاد کے لیے آواز اٹھائیں اور یہ یقینی بنائیں کہ ہم اپنے جائز غم و غصہ میں اتنے نہ بہہ جائیں کہ کسی کو بھی اس کا نشانہ بنانا شروع کر دیں۔ اس طرح ہم دہشت گردوں کے ہاتھ میں کھیلنا شروع کر دیں گے"۔
کینیاٹا نے کہا کہ ان کے خیال میں "اسلام امن اور برداشت کا مذہب" ہے اور وہ بنیاد پرستی جو دہشت گردی کا باعث بن رہی ہے وہ سب کی نظروں کے سامنے کی جا رہی ہے"۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے موثر خاتمے کے لیے حکومت کو نہ صرف ان افراد کو جنہیں بنیاد پرست بنایا جا رہا ہے، کے والدین اور خاندان کے افراد بلکہ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں سے بھی معلومات اور تعاون حاصل کرنا ضروری ہے۔
گارسیا یونیورسٹی کالج پر ہونے والا حملہ 1998ء میں کینیا میں القاعدہ کی طرف سے امریکی سفارت خانے پر ہوئے حملے کے بعد مہلک ترین دہشت گرد حملہ ہے۔ اس حملے میں 200 افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔
کینیاٹا نے یہ عزم کیا کہ حکومت یونیورسٹی کیمپس پر حملے کے ذمہ دار تمام شدت پسندوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے "تما م وسائل بروئے کار لائے" گی۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز اس حملے کے منصوبہ ساز اور حملے میں شریک دوسرے افراد کے متعلق معلومات کے مطابق (ان کی گرفتاری کی) کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
کینیاٹا نے کہا کہ پانچ مشتبہ دہشت گرد گرفتار کر لیے گئے ہیں جبکہ ان کے بقول سکیورٹی فورسز نے چار کو ہلاک کر دیا ہے۔ کینیا کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ گرفتار کیے گئے مشتبہ افراد ہمسایہ ملک صومالیہ میں فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے جہاں الشباب شدت پسند تنطیم موجود ہے۔