رسائی کے لنکس

خلیل الرحمن قمر کے نامناسب الفاظ پر پیمرا کا نوٹس


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی 'نیو نیوز' پر مصنف خلیل الرحمن قمر کی طرف سے ماروی سرمد کے خلاف کی جانے والی گفتگو کو انتہائی بیہودہ اور لغو قرار دیتے ہوئے چینل انتظامیہ کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کردیا ہے۔

پیمرا کا کہنا ہے کہ سات دن میں جواب نہ آنے پر پیمرا قوانین کے تحت چینل کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

علاوہ ازیں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اس واقعے پر خلیل الرحمن قمر کی غیر اخلاقی گفتگو کی مذمت کی ہے۔

کمیشن کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کمیشن مصنف خلیل الرحمن قمر کی طرف سے کی جانے والی گفتگو پر غیرمشروط معافی کا مطالبہ کرتا ہے۔

کمیشن کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس سے قبل خلیل الرحمن قمر انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ عبداللہ کے ساتھ بھی ٹاک شو کے دوران بدتمیزی کر چکے ہیں۔

ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر نے ایک لائیو ٹی وی شو میں تجزیہ نگار اور صحافی ماروی سرمد کے لیے نامناسب الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر نیو ٹی وی کا وہ کلپ ہزاروں بار شیئر کیا جاچکا ہے جس میں خلیل الرحمن قمر کی گفتگو سنی جاسکتی ہے۔

خلیل الرحمٰن قمر نے عورت مارچ کے دوران گزشتہ سال پیش کیے گئے نعرے 'میرا جسم میری مرضی' پر شدید تنقید کی تھی جس پر ماروی سرمد نے انہیں جواب دیا۔ یوں تلخ کلامی شروع ہوگئی۔ ماروی سرمد کہتی ہیں کہ خلیل الرحمٰن قمر نے ان کے ساتھ انتہائی نا مناسب انداز میں بات کی۔

سوشل میڈیا پر اس واقعے کے حوالے سے مختلف ارا کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

معروف اینکر رابعہ انعم نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں خلیل الرحمان قمر نا مناسب انداز میں ماروی سرمد کو برا بھلا کہہ رہے ہیں ۔

انہوں نے لکھا کہ میں یہ بات ریکارڈ پر کہنا چاہوں گی کہ مجھے اس بات پر شرمندگی ہے کہ جیو ٹی وی نے حال ہی میں ان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔

معروف ماڈل اور ایکٹر عفت عمر نے لکھا کہ میں اس وقت شدید غصے کی حالت میں ہوں۔ انہیں ٹاک شوز پر بلانے پر پابندی ہونی چاہیے۔ انہوں نے تمام حدیں ختم کر دی ہیں۔

معروف صحافی عباس ناصر نے لکھا کہ خلیل الرحمان قمر کی ایسی گفتگو اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت مارچ کی کتنی ضرورت ہے۔ عورت مارچ اس مسئلے کو اٹھاتا ہے کہ یہ سوچ صرف ایک آدمی کی نہیں ہے بلکہ معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے۔

بہت سے لوگوں نے خلیل الرحمٰن قمر پر ٹاک شوز میں داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا۔

ایک صارف زرتش چوہدری نے لکھا کہ ٹی وی والے خلیل الرحمان قمر کو اس لیے ٹاک شوز پر بلاتے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ خواتین کے خلاف بولیں اور انہیں ریٹنگ ملے۔

لوگ اس بات پر بھی تنقید کرتے رہے کہ چینل کی جانب سے ان گالیوں کے دوران آواز بند نہیں کی گئی۔

معروف صحافی مہمل سرفراز نے لکھا کہ نہ صرف اس کلپ کو سنسر نہ کیا گیا بلکہ چینل کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے بھی اسے گالیوں سمیت پوسٹ کر دیا گیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ماروی سرمد نے کہا کہ میں خواتین مارچ میں سامنے آنے والے اس مشہور نعرے کی تشریح کر رہی تھی جسے متنازع بنا دیا گیا ہے۔ اس نعرے کا مقصد یہ تھا کہ عورت کا ریپ نہ کیا جائے، اسے جیون ساتھی چننے کی اجازت ہو، اسے اپنی ذات کے بارے میں فیصلہ کرنے کی آزادی ہو، وہ اگر ماں نہیں بننا چاہتی، تو اسے اس کا حق ہو۔

ماروی نے کہا کہ یہاں تو عورتوں کو اس بات کی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ بچے کی پیدائش پر علاج معالجے کی سہولت حاصل کرنے اسپتال تک ہی جاسکیں۔ اس وجہ سے بہت سی عورتیں مر جاتی ہیں۔

‘‘تو یہ ہمارا حق ہے، اور ہم یہ فیصلے کرنے کی اجازت کسی اور کو نہیں دیں گے۔’’

ماروی سرمد کے بقول ان کی اس بات پر خلیل الرحمٰن قمر نے نامناسب الفاظ کا استعمال کیا۔

ماروی سرمد نے کہا کہ عورت مارچ میں کوئی بھی ایسا نعرہ نہیں لگایا گیا جو تشدد کو فروغ دیتا ہو۔

ماروی سرمد کا کہنا تھا کہ ایسا واقعہ دنیا میں کہیں بھی ہوتا تو خلیل الرحمان قمر کے لیے کام کے دروازے بند کردیے جاتے لیکن پاکستان میں انہیں مزید کنٹریکٹ مل رہے ہیں اور انہیں کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا۔

واضح رہے کہ خلیل الرحمن قمر نے گزشتہ سال وائس آف امریکہ اردو کے ریڈیو پروگرام میں اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ "اگرچہ چند خواتین نعرے لگاتی ہیں، میرا جسم میرا مرضی، اپنا کھانا خود گرم کرو ۔۔۔ مگر یہ معاشرے میں بگاڑ اور تعفن پھیلانے کے لیے کیا جارہا ہے۔

XS
SM
MD
LG