پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ دار خاصہ دار فورس کے اہلکار اور افسران قبائلی علاقوں کے صوبے میں انضمام کے بعد اپنے مستقبل کے بارے میں پریشانی کا شکار ہیں۔
پاکستان کی پارلیمان نے گزشتہ ماہ اپنی تحلیل سے چند روز قبل ایک آئینی ترمیم کے ذریعے قبائلی علاقوں میں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے نافذ نظام ختم کرکے وفاق کے زیرِ انتظام تمام سات ایجنسیوں اور چھ فرنٹیر ریجنز کو خیبر پختونخوا میں ضم کردیا تھا۔
اس انضمام کے بعد اب بتدریج ان علاقوں میں انتظامی اور قانونی اصلاحات لائی جا رہی ہیں۔ لیکن ابھی تک ان علاقوں میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ دار خاصہ دار فورس کے اہلکاروں کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے گزشتہ سال پولیس کے نظام کو قبائلی علاقوں تک وسعت دینے کے بارے میں سفارشات مرتب کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی تھی جس نے خاصہ دار فورس کے مستقبل کے بارے میں بھی حکومت کو مختلف تجاویز دی تھیں۔ لیکن ان تجاویز پر بھی اب تک کوئی باضابطہ فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
اس ٹاسک فورس میں شامل ایک اعلٰی پولیس افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ ٹاسک فورس نے خاصہ دار فورس میں شامل اہلکاروں اور افسران کو پولیس فورس میں ان کی تعلیمی قابلیت اور جسمانی فٹنس کے لحاظ سے شامل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
پشاور سے ملحق خیبر ایجنسی کی خاصہ دار فورس کے ایک افسر مظہر آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ تمام قبائلی علاقوں میں خاصہ دار فورس کے اہلکاروں کی تعداد 40 ہزار کے لگ بھگ ہے جن کی اکثریت اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ یا تو وہ خاصہ دار فورس کے اہلکاروں کو پولیس فورس میں کھپائے یا ان پر مشتمل ایک علیحدہ فورس تشکیل دے۔
مظہر آفریدی کے مطابق خاصہ دار فورس میں شامل 60 فی صد اہلکار تعلیمی اور 80 فی صد جسمانی اعتبار سے پولیس فورس میں بھرتی کے اہل ہیں اور معمولی تعلیم و تربیت کے بعد یہ لوگ پولیس کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سر انجام دے سکتے ہیں۔
خاصہ دار فورس کی تاریخ
قبائلی علاقوں میں خاصہ دارفورس کا نظام برِ صغیر پر برطانوی راج کے دوران انگریز حکمرانوں نے انیسویں صدی کے آخری برسوں میں نافذ کیا تھا۔ اور اس نظام کو باقاعدہ شکل 1901ء میں قبائلی علاقوں میں فرنٹیر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے قانون کے نفاذ کے ساتھ دی گئی تھی۔
اس نظام میں خاصہ دار فورس کے اہلکاروں کی بھرتی مقامی انتظامیہ اور حکومت کے وفادار قبائلی رہنمائوں کی سفارش پر کی جاتی تھی اور ان اہلکاروں کی بنیادی ذمہ داری سڑکوں اور بازاروں میں امن و امان قائم رکھنا تھا۔ البتہ بعد میں ان اہلکاروں کو سرکاری افسران اور سیاسی رہنمائوں کے حفاظتی گارڈز میں بھی شامل کیا جانے لگا تھا۔
ماضی میں خاصہ دار فورس کے اہلکاروں کو کسی قسم کی تربیت نہیں دی جاتی تھی۔ تاہم2005ء کے بعد جب افغان سرحد سے ملحق علاقوں میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کا آغاز ہوا تو حکومت نے ان اہلکاروں کو باقاعدہ تربیت دینا شروع کی۔
تربیت مکمل کرنے والے خاصہ دار اہلکاروں کو لیویز فورس کا نام دیا گیا۔ ماضی میں یہ خاصہ دار اپنی ذاتی بندوق کے ساتھ سرکاری فرائض سر انجام دیتے تھے۔ مگر افغان جنگ کے آغاز کے بعد بعض قبائلی علاقوں میں ان اہلکاروں کو سرکاری اسلحہ بھی دیا گیا۔
اسی طرح ماضی میں یہ اہلکار اپنی مرضی کے مطابق شلوار قمیض پہنتے تھے مگر بعد میں ان کے لیے ملیشیا کپڑے پہننا لازمی قرار دیا گیا جو وہ اپنی ہی معمولی تنخواہ سے خریدتے تھے۔
مگر گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد ان اہلکاروں کو باقاعدہ سرکاری وسائل سے کالے رنگ کا ملیشیا لباس اور جوتوں کی فراہمی شروع ہوئی۔
خاصہ دار فورس کو پولیس میں ضم کرنے کی تجویز
باجوڑ سے سابق رکنِ قومی اسمبلی شہاب الدین خان نے، جو قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے لیے بہت متحرک تھے، وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاصہ دار فورس میں شامل اہلکار وراثتی نظام کے تحت بھرتی ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ جو اہلکار تعلیمی قابلیت اور جسمانی لحاظ سے فٹ ہیں ان کو لیویز یا پولیس فورس میں کھپایا جائے اور ان کے بقول حکومت نے ان کے اس تجویز کو قبول کرلیا ہے۔
شہاب الدین خان کے بقول خاصہ دار فورس کے معمر اہلکاروں کو 'گولڈن ہینڈشیک' جیسی اسکیم کے ذریعے رضاکارانہ طور پر ریٹائرمنٹ کی پیشکش کی جائے گی۔
ادھر قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد خاصہ دار فورس کے ان اہلکاروں کے لواحقین کو ماہوار معاوضے اور تعلیمی اخراجات کی ادائیگی بند کردی گئی ہے جو دہشت گردوں کے حملوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
معاوضے سے محروم متاثرہ لواحقین نے پیر کو جمرود میں بابِ خیبر کے مقام پر مظاہرہ بھی کیا اور حکومت سے اپنی مراعات بحال کرنے کا مطالبہ کریا۔
مظاہرے کے باعث افعانستان اور پاکستان کے درمیان آمد و رفت اور دو طرفہ تجارت کا سلسلہ بھی کئی گھنٹوں تک معطل رہا۔