افریقی ملک نائیجیریا میں اغوا ہونے والے اسکول کے بچے ملک کے شمال مغربی علاقے سے بازیاب کرائے جانے کے بعد جمعے کو اپنے گھروں میں واپس پہنچ گئے ہیں۔
ایک ہفتہ قبل موٹر سائیکلوں پر سوار مسلحہ افراد نے کنکرا ٹاؤن کے علاقے کے قریب واقع لڑکوں کے بورڈنگ اسکول پر دھاوا بولا تھا۔ مسلح افراد سیکڑوں طلبہ کو اسلحے کے زور پر اغوا کر کے روگو نامی ایک جنگل میں لے گئے تھے۔
حکام کے مطابق ان بچوں کو سیکیورٹی فورسز نے جمعرات کو بازیاب کرایا۔ البتہ ابھی یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ آیا تمام طلبہ بازیاب ہو گئے ہیں یا نہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق بازیاب ہونے والے بچوں کی اکثریت ننگے پاؤں اور کمبل اوڑھے ہوئے تھی۔ ان بچوں نے ہلکے سبز رنگ کے یونیفارم پہن رکھے تھے۔ بچے تھکے ہوئے تھے مگر صحت مند لگ رہے تھے۔
کٹسینا شہر پہنچنے پر ایک بچے سے اس کے جذبات جاننے کے لیے موقع پر موجود صحافی نے سوال پوچھا تو بچے نے بتایا کہ وہ بہت خوش ہے۔
نائیجیریا میں اسکول کے بچوں کے اغوا کے واقعے سے ملک بھر میں تشویش پھیل گئی تھی اور لوگ دہشت گرد تنظیم 'بوکو حرام' کے ایک ایسے ہی واقعے کو یاد کر رہے تھے جب اس تنظیم نے 2014 میں شمال مشرقی ٹاؤن چیبوک سے 270 سے زائد لڑکیوں کو اغوا کیا تھا۔
اس واقعے کو چھ برس گزر جانے کے باوجود بعد اغوا ہونے والی ان لڑکیوں میں سے تقریباً نصف کو بازیاب کرایا جا سکا ہے جب کہ باقی لڑکیوں کے بارے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں نے ان سے شادیاں کر لیں یا پھر انہیں ہلاک کر دیا گیا ہے۔
جمعے کو جب والدین اپنے بچوں سے ملے تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔
سولہ سالہ حمزہ کی والدہ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہیں اپنے بچے کے بازیاب ہونے سے متعلق خبر پر یقین نہیں آ رہا تھا اور انہیں یقین تب آیا جب ان کے پڑوسوں نے آ کر اس خبر کی تصدیق کی۔
ان کا کہنا تھا کہ بازیابی کی خبر سننے کے بعد انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ خوشی کے مارے گھر سے باہر نکل گئیں۔
خیال رہے کہ پچھلے ہفتے رونما ہونے والے اس واقعے کے بعد حکومت پر ملک کے شمالی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنے کے لیے بہت دباؤ تھا۔
نائیجیریا میں چوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرنے والا مسلح گروہ 'بنڈتس' شمال مغربی علاقوں میں رہائش پذیر آبادیوں پر حملے کرتا ہے جس کی وجہ سے مقامی آبادی کے لیے کھیتی باڑی، سفر اور سونے جیسی قیمتی معدنیات تلاش کرنا مشکل ہو گیا ہے۔