افریقہ کے ملک نائجیریا کی شمال مشرقی ریاست بورنو میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے 43 کسانوں کو اتوار کو سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق سیکیورٹی فورسز لاپتا ہونے والے دیگر درجنوں افراد کی تلاش کر رہے ہیں۔
ریاست بورنو کے گاؤں زبرماری میں ہفتے کی صبح کیے گئے حملے میں لگ بھگ 30 افراد کے سر بھی قلم کیے گئے تھے۔
رہائشیوں کا کہنا ہے کہ لگ بھگ 70 افراد کو ہلاک کیا گیا ہے۔
ان حملوں کی ذمہ داری ابھی تک کسی شدت پسند گروہ یا تنظیم نے قبول نہیں کی۔ البتہ ماضی میں اس طرح کے حملے عسکریت پسند تنظیم ‘بوکو حرام’ یا شدت پسند گروہ ‘داعش’ نے کیے ہیں۔
یہ دونوں شدت پسند تنظیمیں اس خطے میں متحرک ہیں۔ جہاں مذہبی شدت پسند جنگجو گزشتہ دہائی میں کم از کم 30 ہزار افراد کو ہلاک کر چکے ہیں۔
نائجیریا کے صدر محمد بوہاری نے ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے سے پورے ملک کو صدمہ پہنچا ہے۔
گاؤں زبر ماری میں درجنوں سوگواران نے کفن میں لپٹے ہلاک ہونے والے کسانوں کی آخری رسومات میں شرکت کی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق لاپتا افراد میں 10 خواتین بھی شامل ہیں۔
ریاست بورنو کے گورنر ببابانا زولم نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کسانوں کی حفاظت کے لیے مزید فوجی اور شہری دفاع کے دستے بھرتی کرے۔
گورنر کا مزید کہنا تھا کہ اگر کسان گھروں میں قید رہتے ہیں تو وہ بھوک اور افلاس کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ جب کہ اگر وہ کھیتوں میں کام کرنے کے لیے جاتے ہیں تو انہیں شدت پسند نشانہ بناتے ہیں۔
واضح رہے کہ نائجیریا میں گزشتہ برس سے سیلاب، سرحدوں کی بندش اور امن و امان کے خراب صورت حال کی وجہ سے اجناس کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔