امریکہ نے کہا ہے کہ ایک اہم شامی باغی رہنما کی ہلاکت سے ملک میں پانچ برس سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے اور سیاسی حل کی کوششوں میں پیچیدگی پیدا ہوئی ہے۔
جیش الاسلام نامی تنظیم کا رہنما زهران علوش جمعے کو ایک فضائی حملے میں ہلاک ہو گیا تھا جس کی ذمہ داری شام کی فوج نے تسلیم کی تھی۔
پیر کو امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے کہا کہ امریکہ کو شام میں جیش الاسلام کی کاررائیوں پر تشویش ہے مگر اس نے باغی گروہوں کی ایک کانفرنس میں شرکت کی تھی، سیاسی عمل کی حمایت کی تھی اور داعش کے خلاف لڑ رہی تھی۔
’’میرا خیال ہے ہم اس پر اتفاق کریں گے کہ اس طرح کی فضائی کارروائی سے کوئی تعمیری پیغام نہیں جاتا۔ اور جیسا کہ میں نے کہا اس سے (امن کی) کوششوں میں پیچیدگی پیدا ہو گی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان کارروائیوں سے اب تک ہونے والی پیش رفت متاثر نہیں ہو گی۔‘‘
انہوں نے شام میں امن کے لیے 25 جنوری کو مذاکرات کی کوششوں پر اقوام متحدہ کے سفیر سٹافن ڈی مستورا کے لیے امریکہ کی حمایت کا اعادہ کیا۔
گزشتہ سال اقوام متحدہ کی سرپرستی میں شام کی حکومت اور باغیوں کے درمیان امن مذاکرات کے دو دور ہوئے تھے مگر ان میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
شام میں جاری خانہ جنگی میں اب تک ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ 2011 میں حکومت کے خلاف ہونے والے پرامن مظاہرے بعد میں شدت اختیار کر کے کثیر فریقی خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئے۔ دریں اثنا داعش نے بھی ملک کے وسیع مشرقی حصوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 43 لاکھ افراد ملک سے فرار ہو چکے ہیں جبکہ مزید 66 لاکھ افراد شام کے اندر بے گھر ہوئے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ملک میں ایک کروڑ 35 لاکھ افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔