شمالی کوریا نے غیر ملکی ماہرین کی موجودگی میں اپنی میزائل تنصیبات مستقل طور پر ختم کرنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکہ بھی ایسا ہی اقدام اٹھائے تو وہ اپنی مرکزی جوہری تنصیب بھی بند کرنے پر تیار ہے۔
یہ اعلان بدھ کو پیانگ یانگ میں جنوبی و کوریائی صدور نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔
جنوبی کوریا کے صدر مون جائے ان تین روزہ سرکاری دورے پر منگل کو پیانگ یانگ پہنچے تھے جہاں انہوں نے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان سے ملاقات کی تھی۔
دورے کے دوسرے روز مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے کہا کہ انہوں نے جزیرہ نما کوریا کو "جوہری ہتھیاروں اور جوہری خطرات سے پاک امن کی سرزمین" بنانے اور اس مقصد کے حصول کے لیے فوری اقدامات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان گزشتہ چند ماہ کے دوران یہ تیسری ملاقات ہے جس کا مقصد دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات معمول پر لانا اور شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان مذاکرات کے لیے فضا ہموار کرنا ہے۔
شمالی کوریا کی یقین دہانیاں
بدھ کو پریس کانفرنس میں کم جونگ ان نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ جلد جنوبی کوریا کا دورہ کریں گے جو شمالی کوریا کے کسی بھی سربراہ کا پڑوسی ملک کا پہلا دورہ ہوگا۔
اس موقع پر صدر مون کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے سربراہ کا یہ دورہ رواں سال کے اختتام تک ہونے کی توقع ہے۔
شمالی کوریا کے سربراہ صدر مون کے ساتھ اپنی پہلی دو ملاقاتوں اور رواں سال جون میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی تاریخی ملاقات میں جوہری اور میزائل تجربات روکنے اور خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں۔
لیکن تاحال یہ طے نہیں ہوسکا کہ شمالی کوریا اپنے ان وعدوں پر کب اور کیسے عمل کرے گا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ شمالی کوریا ان مقاصد کی جانب واضح پیش رفت کرے جس کے بعد ہی اس پر سے اقتصادی پابندیاں اٹھانے کا عمل شروع کیا جائے گا۔
اس کے برعکس پیانگ یانگ کی خواہش ہے کہ اس کی یقین دہانیوں کے جواب میں اس پر سے پابندیاں اٹھانے کا عمل شروع کردیا جائے جس کے بعد وہ اپنے وعدوں پر عمل درآمد شروع کرے گا۔
گو کہ شمالی کوریا کی حکومت یک طرفہ طور پر اپنے میزائل اور جوہری تجربات روک چکی ہے لیکن اس نے رواں سال مئی میں بین الاقوامی ماہرین کو اپنی اس واحد معلوم جوہری تجربہ گاہ کے معائنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا جس کے بارے میں پیانگ یانگ نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے بند کردیا گیا ہے۔
بدھ کو اپنی پریس کانفرنس میں صدر مون جائے ان نے اعلان کیا کہ شمالی کوریا نے "متعلقہ ملکوں" کے ماہرین کو ان بند تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا ہے جہاں میزائلوں اور ان کے انجنوں کے تجربات کیے جاتے ہیں۔
بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ شمال مغربی قصبے ڈونگ چانگ ری کے نزدیک واقع یہ دونوں تنصیبات شمالی کوریا کے ان بین البراعظمی میزائلوں کی تیاری اور تجربات کا اہم مرکز رہی ہیں جن کی مار امریکہ تک ہے۔
صدر مون نے صحافیوں کو بتایا کہ شمالی کوریا نے مزید اقدامات کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے اور وہ یونگ بیون میں واقع اپنی مرکزی جوہری تنصیب بھی مستقل طور پر غیر مؤثر کرنے پر راضی ہے بشرطیکہ امریکہ کی جانب سے بھی ایسے ہی اقدامات کیے جائیں۔
شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیار یک طرفہ طور پر ختم کرنے کے عالمی مطالبات ہمیشہ رد کرتا آیا ہے اور اس کا موقف رہا ہے کہ ایسے کسی بھی اقدام سے قبل امریکہ اور جنوبی کوریا، شمالی کوریا کے ساتھ جنگ کے خاتمے کا باضابطہ اعلان کریں۔
جزیرہ نما کوریا میں 1950ء سے 1953ءتک ہونے والی جنگ ایک عارضی جنگ بندی پر ختم ہوئی تھی جس کی وجہ سے امریکہ اور جنوبی کوریا تاحال شمالی کوریا کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں۔
صدر ٹرمپ کا خیر مقدم
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں کوریاؤں کے درمیان ہونے والے اتفاقِ رائے اور معاہدوں کا خیرمقدم کیا ہے۔
اپنے ایک ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ کم جونگ ان نے جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینے اور غیر ملکی ماہرین کی موجودگی میں میزائل تجربات کے لیے استعمال ہونے والی ایک تنصیب بند کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
اپنے ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے مزید کہا ہے کہ اس عرصے کے دوران شمالی کوریا کی جانب سے کوئی میزائل یا جوہری تجربہ بھی نہیں ہوگا۔
صدر مون کے دورے کے دوران شمالی و جنوبی کوریا نے 2032ء کے اولمپکس کی مشترکہ میزبانی کرنے کی درخواست دینے اور 2020ء میں ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس سمیت کھیلوں کے دیگر عالمی مقابلوں میں مشترکہ ٹیمیں لانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
دونوں ملکوں نے ایک فوجی معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں جس کے تحت دونوں ملک سرحد پر کشیدگی ختم کریں گے اور بتدریج چوکیوں اور وہاں نصب ہتھیاروں میں کمی لائیں گے۔