سوویت یونین سے علیحدہ ہو جانے والی ان ریاستوں میں سےجن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں ، کر غزستان گزشتہ چھ ماہ سے خبروں میں ہے ۔عوامی احتجاج اور بے چینی نے جہاں کرغیز ستان کے صدر اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا ، وہاں سیاسی کشیدگی اور نسلی فسادات میں کئی افراد ہلاک ہوئے ۔ ان دنوں کرغزستان میں نئے انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں اور ان میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کی تعداد پندرہ بیس نہیں بلکہ دو سو ہے ، جو اگلے ماہ یعنی اکتوبر کی دس تاریخ کوانتخابات میں حصہ لے کر ایک پارلیمانی طرز کی حکو مت قائم کریں گے ۔ اس صورت حال کاافغانستان ، پاکستان اور امریکہ سے ایک گہرا تعلق ہے ۔
101 ویں ائیر بورن ڈویژن کے امریکی فوجیوں کے لئے مناس ائیر ٹرانزٹ سینٹرایسا ہے جیسے مشرقی ایشیا میں ان کا اپنا چھوٹا سا امریکہ ، جو ان کی حقیقی منزل اور میدان جنگ افغانستان سے صرف دو گھنٹے کی اڑان پرواقع ہے ۔ اسی اڈے کے ٹینکرز افغانستان کے طویل فضائی مشنز پر جانے والے امریکی جنگی جہازوں کو ایندھن فراہم کرتے ہیں ۔پاکستان میں حالیہ مہینوں میں امریکی رسد کے قافلوں پر ہونے والے حملوں نے امریکی فوج کے لئے کرغزستان کے فوجی اڈے کی اہمیت میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے ۔
کرنل ڈوائٹ سونز اس امریکی فوجی اڈے کے کمانڈر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ کرغزستان اپنے محل وقوع اور پڑوسی ملکوں پر اثر کے حوالے سے مشرقی ایشیا کا تاج ہے۔
جب کرغز شہر اوش میں کر غز اور تاجک شہریوں کے درمیان کشیدگی کا آغازہوا ، تو اس وقت کرنل ڈوایٹ سونزوہاں تعینات ہو ئے تھے ۔ ان کے فوجی اڈے سے 320 کلو میٹر دور سینکڑوں افراد ہنگاموں میں مارے گئے ۔ کرغزستان میں امریکی فوجی اڈے کی مخالفت میں سیاسی آوازیں بھی اٹھتی رہی ہیں ۔گزشتہ سال کرغز پارلیمنٹ میں امریکی فوجی اڈہ ختم کرنے کی مخالفت میں78 جبکہ حق میں صرف ایک ووٹ پڑا تھا ۔ جس پر امریکہ نے اڈے کا کرایہ بڑھا کر ساٹھ ملین ڈالر کر دیا۔
علی شیر خامیدوف ایک سیاسی تجزیہ کار ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اب یہ سب لوگ دوبارہ امریکی اڈہ ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ تمام مسائل کی جڑ مغربی فوج کی موجودگی ہے ۔ میں نے کچھ سیاستدانوں کو اس اڈے کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے دیکھا ہے ،اس امید پر کہ کرغزستان اپنی خود مختاری اور استحکام دوبارہ حاصل کر لے گا ۔
امریکی فوجی اڈے کی مخالفت روس کی طرف سے بھی ہو رہی ہے جس نے 1876ء سے 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے تک یہاں حکومت کی ہے ۔ اب کرغزستان نے بیک وقت امریکہ اور روس کو اپنی زمین پر فوجی اڈے دے رکھے ہیں ۔
ایک روسی مبصر لیونڈ بونڈریٹس کہتے ہیں کہ امریکہ اڈہ یہاں 2001ء میں عارضی طور پر ایک سال کی لیز پر حاصل کیا گیا تھا ۔ ان کے ٕخیال میں یہ اڈہ مشرقی ایشیا کے تیل اور گیس جیسے قدرتی وسائل اور افغان معدنیات کے حصول کے لئے امریکہ کے کسی بڑے منصوبے کا حصہ ہے ۔
اس ملک میں روس کا اثر اب بھی واضح ہے ۔ 30 سال سے زیادہ عمر کے افرادزیادہ تر روسی زبان بولتے ہیں ۔ ہر پانچ میں سے ایک کرغزشہری روس میں ملازمت کرتا ہے ۔ جو رقم وہ اپنے وطن بھیجتے ہیں وہ 53 لاکھ آبادی والے اس ملک کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جسے کسی آبی گزرگاہ تک رسائی حاصل نہیں ۔
امریکی اڈے پر کام کرنے والے فوجیوں کو مقامی آبادی کا دل جیتنے کی کوشش بھی کرنی پڑتی ہے ۔ کرنل ڈوائٹ سونز کہتے ہیں کہ ہماری یہاں موجودگی کا ایک سماجی اور ثقافتی پہلو بھی ہے جس کے لئے ہم اپنے یونیفارم پر بھروسہ نہیں کرتے ۔ اگر موقعہ ملے تو عام لباس میں ہم والی بال اور ساکر کھیلنے ، یا ثقافتی پروگرام دیکھنے جاتے ہیں ۔ شہر کے عمائدین کو اپنی ثقافتی تقریب میں مدعو کرتے ہیں ، یہ سب دوست بنانے کی کوشش ہے ۔
کرغز دارلحکومت بشکیک میں سیاسی تجزیہ کار ویلن ٹین بوگاتیروف کہتے ہیں کہ کرغز شہریوں کی رائے امریکی اڈے کی طرف تبدیل ہو رہی ہے ۔ اور ان کے مطابق کرغیزستان کے بعض اہم سیاستدان فوجی اڈے کی آمدنی کو ملکی بجٹ ، ترقیاتی منصوبوں ، بشکیک کے بین الاقوامی ہوئی اڈے کی تعمیر اور 900 مقامی کارکنوں کی نوکریاں پیدا کرنے کے لئے اہم بھی قرار رہے ہیں ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ وسطی ایشیا کے اس اہم ملک میں امریکہ اپنی موجودگی قائم رکھنے کے لئے خیر سگالی اور ڈالر کی کرنسی دونوں خرچ کرنے کو تیار ہے تاکہ افغانستان کے لئے رسد کی فراہمی کا راستہ کھلا رہے۔