شام کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ترک سرحد کے جنوب میں واقع شام کے قصبے، کوبانی پر کنٹرول کے لیے چھ ہفتوں سے داعش اور کُرد جنگجوؤں کے مابین جاری لڑائی میں، اب تک 800 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
برطانیہ میں قائم ’سیئرین آبزویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے اتوار کے دِن بتایا کہ تقریباً 500 جہادی اور 300 سے زائد کُرد ہلاک ہوئے ہیں۔
مزید 550 یا اِس سے بھی زیادہ کا شمار اِس کے علاوہ ہے، جو گذشتہ ماہ سے لے کر اب تک امریکی قیادت میں جاری فضائی کارروائیوں میں ہلاک ہوئے، جِن میں سے زیادہ تر کا تعلق داعش کے جنگجوؤں سے تھا۔
انسانی حقوق کےگروپ نے کہا ہے کہ اِس دو بدو لڑائی کے دوران 21 شہری ہلاک ہوئے، لیکن کوبانی کی زیادہ تر آبادی ترکی کے پناہ گزیں کیمپوں میں مقیم ہے، جن میں سے 200000 سے زائد سرحد پر جمع ہے۔
امریکی لڑاکا طیاروں نےگذشتہ روز داعش کے ٹھکانوں پر پانچ سے زیادہ فضائی حملے کیے، اور اتوار کو کوبانی میں ہونے والے دھماکوں کے باعث فضا میں دھویں کے کالے بادل چھائے رہے۔
لگاتار چوتھے روز، جہادیوں نے ترکی سےشام جانے والی سرحد پر قبضے کی کوششیں جاری رکھیں، جنھیں کُرد باغیوٕ نے ناکام بنا دیا۔
یہ وہ مقام ہے جو عراقی کُردوں کی کلیدی گزرگاہ ہے، جہاں سے ’پیش مرگہ‘ سے وابستہ200 انتہائی تربیت یافتہ جنگجوؤں کو براستہ ترکی کوبانی میں لڑنے کے لیے بھیجنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
نئے جنگجوؤں میں سے چند اِسی ہفتے کوبانی کا رُخ کر سکتے ہیں۔
دریں اثنا، عراق نے کہا ہے کہ اُس کی افواج نے،جنھیں شیعہ ملیشیاؤں کی حمایت حاصل ہے، جرف السخر نامی قصبے کا کنٹرول دوبارہ سنبھال لیا ہے، جو بغداد کے دارالحکومت سے 50 کلومیٹر جنوب کی طرف واقع ہے۔ جرف السخر جولائی میں داعش کے شدت پسندوں کے قبضے میں چلا گیا تھا۔
عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے اس قصبے پر دوبارہ کنٹرول کے حصول کو دولت اسلامیہ کے لیے ’کالی ضرب‘ قرار دیا ہے۔