خیبر پختونخوا کے سرکاری اسپتالوں میں تعینات ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبّی عملے کی جانب سے صوبائی حکومت کی انتظامی اصلاحات کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے، جس کے باعث مریض اور ان کے رشتہ دار سخت مشکلات کا شکار ہیں۔
سرکاری اسپتالوں میں تعینات طبّی عملے کے اہلکاروں کی تنظیم گرینڈ ہیلتھ الائنس (جی ایچ اے) کے رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ حکومت نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ مذکورہ قوانین کی اسمبلی سے منظوری سے قبل انہیں اعتماد میں لیا جائے گا۔ لیکن اس ضمن میں ان سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، جس کے باعث وہ قوانین کے خلاف احتجاج پر مجبور ہوئے۔
گرینڈ ہیلتھ الائنس کے ترجمان ڈاکٹر حضرت اکبر نے بدھ کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے احتجاج اور ہڑتال کو جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ محکمۂ صحت سے منسلک صوبہ بھر کے تمام ڈاکٹر اور دیگر ملازمین جمعے کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں جمع ہو کر احتجاجی ریلی نکالیں گے۔
یاد رہے کہ گزشتہ جمعے کو محکمۂ صحت میں اصلاحات کے لیے صوبائی اسمبلی کی نئی قانون سازی کے خلاف لیڈی ریڈنگ اسپتال میں طبّی عملے نے احتجاج کیا تھا۔
مظاہرین کو روکنے کے لیے پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج بھی کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں دو خواتین سمیت ایک درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
زخمیوں میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کے سربراہ ڈاکٹر عالمگیر اور ایک اور عہدے دار ڈاکٹر زبیر بھی شامل تھے۔ احتجاج کے بعد حکومت نے لگ بھگ 70 ڈاکٹروں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے ہیں۔
واضح رہے کہ اب تک 18 افراد کو احتجاج کرنے پر گرفتار بھی کیا گیا ہے جن میں ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ گرفتار افراد کو پشاور کے بجائے خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں کی جیلوں میں قید کیا گیا ہے۔
اس واقعے کے بعد صوبے بھر کے اسپتالوں میں ہڑتالوں اور احتجاج کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ احتجاج سے ایک روز قبل پشاور کے ڈپٹی کمشنر نے تمام اسپتالوں میں دفعہ 144 نافذ کر کے طبّی مراکز کی حدود میں ہر قسم کے احتجاج پر پابندی عائد کی تھی، جس کے بعد سے اب تک پشاور میں دفعہ 144 نافذ ہے۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے اسپتالوں میں انتظامی اصلاحات کے لیے ڈویژنل اور ضلعی سطح پر خود مختار بورڈز بنانے کے لیے قانون سازی کی ہے۔ اس قانون کے مطابق تمام سرکاری اسپتالوں میں متعلقہ بورڈز سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر اخراجات پورے کرنے کے لیے فیسوں کو بڑھائیں گے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس فیصلے سے ان کی سرکاری ملازمت بھی متاثر ہوگی۔ لیکن اس کا سب سے زیادہ اثر غریب عوام پر ہی پڑے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے خیبر پختونخوا میں گزشتہ دورِ حکومت کے دوران بھی پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال سمیت صوبے کے چار بڑے اسپتالوں میں اسی قسم کے بورڈ قائم کیے گئے تھے۔ ان بورڈز کے سربراہ وزیرِ اعظم عمران خان کے ایک قریبی رشتہ دار ڈاکٹر نوشیروان برکی ہیں۔
ڈاکٹروں سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما، کارکنان اور عام لوگ بھی لیڈی ریڈنگ اسپتال، خیبر ٹیچنگ اسپتال، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اور ایبٹ آباد کے ایّوب ٹیچنگ اسپتال کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ ان اسپتالوں کے انتظامی امور کے لیے گزشتہ دورِ حکومت میں بورڈز قائم کیے گئے تھے۔
اسی بنیاد پر ڈاکٹروں سمیت دیگر طبی عملہ اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ممبرانِ اسمبلی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیرِ اطلاعات شوکت یوسفزئی کو بھی ان کے ایک حالیہ بیان کی وجہ سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شوکت یوسفزئی نے ایک روز قبل اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ڈاکٹروں کو زیادہ تر سرکاری نوکریاں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے فراہم کی ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے تو ڈاکٹرز اور انجینئرز پکوڑے بیچتے تھے۔
البتہ بعد ازاں شوکت یوسفزئی اپنے اس بیان پر معذرت کرتے ہوئے اپنے الفاظ کو واپس لے لیا تھا۔
پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے گرینڈ ہیلتھ الائنس کے صدر ڈاکٹر اکبر نے صوبائی وزیرِ اطلاعات کے مذکورہ بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ہڑتال کرنے والے ڈاکٹر اب کسی کے ساتھ بھی مذاکرات نہیں کریں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرے۔
دوسری جانب صوبائی حکومت سرکاری اسپتالوں میں ہڑتال کے معاملے پر خاموش دکھائی دے رہی ہے۔
صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان نے چند روز قبل حکومتی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت تمام سرکاری اسپتالوں میں مفت سہولیات فراہم نہیں کر سکتی۔ لہٰذا، اسپتالوں کے انتظامات چلانے اور اخراجات پورے کرنے کے لیے اس قانون کے ذریعے نجی شعبے کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کو جاری رکھے گی اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔