خیبر پختونخوا کے محکمۂ سیاحت نے عید الاضحیٰ کے چار دنوں کے دوران صوبے کے پانچ مختلف سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی آمد اور سیاحتی سرگرمیوں کے اعداد و شمار جاری کر دیے ہیں۔
حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق عید کے موقعے پر 27 لاکھ 70 ہزار سیاحوں نے صوبے کے پانچ سیاحتی مقامات کا رخ کیا۔ رپورٹ میں ان مقامات کی جانب جانے والی گاڑیوں کی مجموعی تعداد سات لاکھ 20 ہزار بتائی گئی ہے۔
عید الاضحیٰ کے چار روز کے دوران سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی آمد اور معاشی سرگرمیوں سے متعلق صوبائی محکمۂ سیاحت کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ مقامی سیاحوں نے گلیات، نتھیا گلی اور سوات کا رُخ کیا۔ ان مقامات پر آنے والے سیاحوں کی تعداد 10 لاکھ بتائی گئی ہے۔
سیاحوں کی آمد کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ضلع مانسہرہ کی وادیٴ کاغان رہی جہاں سات لاکھ سیاحوں کی آمد ہوئی۔
اس کے علاوہ دیر بالا کے پُر فضا مقام کمراٹ جانے والوں کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار جب کہ چترال جانے والوں کی تعداد 50 ہزار بتائی گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق عید کے چار دنوں کے دوران ان مقامات کا رخ کرنے والے سیاحوں نے مجموعی طور پر 66 ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ ان سیاحتی سرگرمیوں سے اس شعبے سے وابستہ مقامی لوگوں کو ساڑھے 27 ارب روپے کا فائدہ ہوا ہے۔
سیاحوں نے عید الاضحیٰ کے چار دنوں کی تعطیلات 22 جولائی سے 25 جولائی تک ان سیاحتی مقامات پر گزاری تھیں۔
محکمۂ سیاحت کی رپورٹ کے مطابق اب بھی ملک کے دیگر علاقوں میں شدید گرمی کے ستائے ہوئے لاکھوں لوگ خیبر پختونخوا کے مختلف سیاحتی مقامات پر شب و روز گزار رہے ہیں اور خوش گوار موسم سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
مشکلات اور سہولتوں کا فقدان
سوات میں ہوٹل مالکان کی تنظیم کے صدر حاجی زاہد خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں بتایا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات کے حوالے سے کرائی یقین دہانی پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مدین سے کالام تک سڑک کی تعمیر کے لیے ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے پانچ ارب روپے فراہم کیے تھے مگر ایک تو سڑک کی تعمیر انتہائی ناقص ہے اور دوسری طرف ابھی تک اس پر 12 پلوں کی تعمیر التوا کا شکار ہے جس کی وجہ سے ملک بھر سے آنے والے سیاحوں کو کالام آنے جانے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
بحرین سے کالام تک سڑک کی تعمیر کا ٹھیکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت میں انجینئر امیر مقام کی کمپنی کو دیا گیا تھا۔ جولائی 2018 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد مبینہ طور پر اس منصوبے پر تعمیراتی کام روک دیا تھا۔
انجینیئر امیر مقام کی کمپنی نے اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کیا تھا۔ عدالت نے وفاقی حکومت کے اس اقدام کو غیر قانونی قرا ر دے کر امیر مقام کی کمپنی کو کام جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔ البتہ ابھی تک 13 پلوں کی تعمیر کا سلسلہ رکا ہوا ہے جس کی وجہ سے سیاحوں کو کالام آنے جانے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔
گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں
عیدالاضحیٰ کے دوران نہ صرف سوات اور گلیات بلکہ مانسہرہ کی وادیٴ کاغان، ناران، شوگران، دیر کی وادیٴ کمراٹ اور چترال جانے والی گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھنے میں آئیں۔
کالام جانے والے صوابی سے تعلق رکھنے والے سعد فتح علی خان کا کہنا ہے کہ عید کے دوران انہوں نے والد اور بہن بھائیوں سمیت کالام میں ماموں کے گھر کئی دن گزارے تھے۔ مگر کالام میں اتنا رش تھا کہ وہ بازار تک نہیں جا سکتے تھے ۔
اسی طرح سوات کے مرکزی انتظامی اور تجارتی شہر مینگورہ سے لے کر کالام کے مہوڈنڈ اور دیگر مقامات تک زیادہ تر سڑکوں پر آمد و رفت کا سلسلہ کئی کئی گھنٹوں تک معطل رہا تھا۔ حتیٰ کہ بعض مقامات پر سیاحوں کو یا تو کھلے آسمان تلے یا گاڑیوں ہی میں رات بسر کرنا پڑی تھی۔
گلیات اور کالام سمیت خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات پر سیاحوں کو ہوٹلوں اور ریستورانوں کے میں کھانے پینے سمیت دیگر اشیا کی خریداری میں بھی زیادہ نرخوں وصول کرنے کی شکایت کا سامنا رہا۔
کالام ہی میں ایک پمپ پر جب فی لیٹر پیٹرول 700 روپے فروخت ہونے کی ویڈیو وائرل ہوئی تو وزیرِ اعلیٰ محمود خان کی ہدایت پر سوات کےضلعی انتظامیہ نے کارروائی کرکے مقامی پیٹرول پمپ کے مینیجر کو گرفتار کیا۔ البتہ مبینہ طور پر اضافی قیمتیں اور نرخ وصول کرنے والے ہوٹل مالکان اور دکان داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
سیاحت میں اضافے کے ساتھ ماحولیات کے لیے بڑھتے خطرات
صوبے کے مختلف سیاحتی مقامات پر عید کے دنوں میں سیاحوں کی بڑی تعداد میں آمد سے قدرتی ماحول پر منفی اثرات پڑنے کے امکانات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ حکومت بعض مقامات پر ماحول کے تحفظ کے لیے اقدامات بھی کر رہی ہے۔
سوات سے تعلق رکھنے والے شوکت علی جو قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے عرصۂ دراز سے سرگرم ہیں، کا کہنا ہے کہ بعض مقامات پر حکومت کے اقدامات تو قابل تعریف ہیں مگر اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے سیاحوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی اور صفائی کے انتظامات بہتر بنانے پر زور دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سوات کے ہوٹل مالکان کی تنظیم کے صدر حاجی زاہد خان نے حکومت کے ماحولیاتی تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات پرعدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان مقامات پر قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک بھر کے سیاح اسی قدرتی ماحول کو دیکھنے کے لیے تو ان مقامات کا رُخ کرتے ہیں۔
سیاحت کے فروغ کے لیے سرکاری اقدامات
خیبر پختونخوا کے محکمۂ سیاحت کے ڈائریکٹر جنرل سید محمد علی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے صوبائی حکومت عالمی بینک اور دیگر اداروں کے تعاون سے سیاحتی مقامات تک سڑکوں کی تعمیر پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس میں سوات میں کالام، ایبٹ آباد میں گلیات اور ٹھنڈیانی، چترال اور اپر دیر کی سڑکوں کی تعمیر سرفہرست ہے۔ اسی طرح ان مقامات پر رہائش کے لیے نہ صرف نجی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے بلکہ پہلے سے موجود سرکاری مہمان خانوں کو بھی نجی تحویل میں دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سیاحوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے سیاحتی پولیس اور ریسکیو کے اداروں کو ان علاقوں میں دن رات چوکنا کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان علاقوں کے ہوٹلوں، ریستورانوں، دکانوں اور دیگر تجارتی مراکز میں معیاری اشیا کی مناسب نرخوں پر سیاحوں کو فراہمی کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔