واشنگٹن —
یوکرین کے مشرقی علاقے میں سرکاری تنصیبات پر قابض مظاہرین کے خلاف کارروائی میں یوکرینی فوج کو ہزیمت اٹھانا پڑی ہے اور مظاہرین نے فوج کی کئی بکتر بند گاڑیوں پر قبضہ کرلیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق سلووینسک شہر کے نزدیک یوکرینی فوجیوں نے روس نواز مسلح مظاہرین کے ایک گروہ کا سامنا ہونے پر کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی اور بکتر بند گاڑیوں کا قبضہ ان کے حوالے کردیا۔
مسلح مظاہرین بکتر بند گاڑیوں پر روس کے پرچم لہرانے کے بعد انہیں شہر میں لے گئے ہیں جہاں عوام بڑی تعداد میں اس "کامیابی" کا جشن منارہے ہیں۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق بعض علاقوں میں یوکرینی فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے اور مظاہرین کے ساتھ مل جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ مظاہرین کے ایک گروہ نے فوجی بکتر بند گاڑیوں کے ایک دوسرے قافلے کو سلووینسک پہنچنے سے روک دیا ہے۔
جائے واقعہ پر موجود غیر ملکی صحافیوں کے مطابق مظاہرین نے شہر کی جانب جانے والی سڑک رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کر رکھی ہے اور انہوں نے یوکرینی سپاہیوں سے اسلحہ لینے کے بعد انہیں واپس جانے کی اجازت دیدی ہے۔
خیال رہے کہ سلووینسک مشرقی یوکرین کے ان 10 شہروں میں سے ایک ہے جہاں رواں ماہ کے آغاز پر روس نواز مظاہرین نے قبضہ کرکے یوکرین سے آزادی کا اعلان کردیا تھا۔
مظاہرین اپنے علاقوں میں کرائمیا کی طرز پر ریفرنڈم کے انعقاد کا مطالبہ کر رہے ہیں جس میں انہیں یوکرین کے ساتھ رہنے یا روس سے الحاق کرنے کے فیصلے کا اختیار دیا جائے۔
مغربی ممالک نے الزام عائد کیا ہے کہ ان علاقوں میں ہونے والی شورش کے پیچھے روس کا ہاتھ ہے جو کرائمیا کی طرح ان علاقوں کو بھی ہتھیانا چاہتا ہے۔ ماسکو حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
ملک کے مشرقی علاقے میں حکومتی عمل داری ختم ہونے اور سرکاری تنصیبات پر مظاہرین کے دو ہفتے سے زائد جاری قبضے سے تنگ آکر یوکرینی حکومت نے رواں ہفتے ہی مظاہرین کے خلاف فوجی کارر وائی کا آغاز کیا تھا۔
تاہم مظاہرین کی جانب سے یوکرینی فوجیوں کا اسلحہ اور گاڑیاں چھیننے کے واقعات سامنے آنے کے بعد بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اس کارروائی کی افادیت اور یوکرین حکومت کی صلاحیت پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔
مظاہرین کی یہ جارحانہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب جمعرات کو امریکہ، روس، یورپی یونین اور یوکرین کے اعلیٰ نمائندے یوکرین بحران پر تبادلۂ خیال کے لیے جنیوا میں ملاقات کرنے والے ہیں۔
امریکی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں خطے میں کشیدگی اور فوجی نقل و حرکت میں کمی، یوکرین میں آئینی اصلاحات اور روسی نژاد آبادی کے علاقوں کو مزید خودمختاری دینے، اور یوکرین میں 25 مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے انعقاد پر بات چیت کی جائے گی۔
بدھ کو امریکی محکمۂ خارجہ کی ایک ترجمان نے یہ بیان بھی دیا ہے کہ امریکہ روس کے خلاف نئی پابندیوں کی تفصیلات طے کر رہا ہے جو یوکرین کا بحران جاری رہنے کی صورت میں ماسکو حکومت پر عائد کی جائیں گی۔
دوسری جانب روس نے یوکرین کی جانب سے روسی بولنے والے مظاہرین کے خلاف فوجی کاروائی کو "غیر آئینی" قرار دیتےہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر یوکرینی فوج نے مظاہرین پر حملہ کیا تو روس جنیوا مذاکرات کا بائیکاٹ کردے گا۔
روس کے وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ مشرقی یوکرین میں جاری احتجاج اسی صورت میں ختم ہوگا جب یوکرینی حکومت علاقے میں بسنے والی روسی نژاد آبادی کے تحفظات کا ازالہ کرے گی۔
اطلاعات کے مطابق سلووینسک شہر کے نزدیک یوکرینی فوجیوں نے روس نواز مسلح مظاہرین کے ایک گروہ کا سامنا ہونے پر کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی اور بکتر بند گاڑیوں کا قبضہ ان کے حوالے کردیا۔
مسلح مظاہرین بکتر بند گاڑیوں پر روس کے پرچم لہرانے کے بعد انہیں شہر میں لے گئے ہیں جہاں عوام بڑی تعداد میں اس "کامیابی" کا جشن منارہے ہیں۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق بعض علاقوں میں یوکرینی فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے اور مظاہرین کے ساتھ مل جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ مظاہرین کے ایک گروہ نے فوجی بکتر بند گاڑیوں کے ایک دوسرے قافلے کو سلووینسک پہنچنے سے روک دیا ہے۔
جائے واقعہ پر موجود غیر ملکی صحافیوں کے مطابق مظاہرین نے شہر کی جانب جانے والی سڑک رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کر رکھی ہے اور انہوں نے یوکرینی سپاہیوں سے اسلحہ لینے کے بعد انہیں واپس جانے کی اجازت دیدی ہے۔
خیال رہے کہ سلووینسک مشرقی یوکرین کے ان 10 شہروں میں سے ایک ہے جہاں رواں ماہ کے آغاز پر روس نواز مظاہرین نے قبضہ کرکے یوکرین سے آزادی کا اعلان کردیا تھا۔
مظاہرین اپنے علاقوں میں کرائمیا کی طرز پر ریفرنڈم کے انعقاد کا مطالبہ کر رہے ہیں جس میں انہیں یوکرین کے ساتھ رہنے یا روس سے الحاق کرنے کے فیصلے کا اختیار دیا جائے۔
مغربی ممالک نے الزام عائد کیا ہے کہ ان علاقوں میں ہونے والی شورش کے پیچھے روس کا ہاتھ ہے جو کرائمیا کی طرح ان علاقوں کو بھی ہتھیانا چاہتا ہے۔ ماسکو حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
ملک کے مشرقی علاقے میں حکومتی عمل داری ختم ہونے اور سرکاری تنصیبات پر مظاہرین کے دو ہفتے سے زائد جاری قبضے سے تنگ آکر یوکرینی حکومت نے رواں ہفتے ہی مظاہرین کے خلاف فوجی کارر وائی کا آغاز کیا تھا۔
تاہم مظاہرین کی جانب سے یوکرینی فوجیوں کا اسلحہ اور گاڑیاں چھیننے کے واقعات سامنے آنے کے بعد بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اس کارروائی کی افادیت اور یوکرین حکومت کی صلاحیت پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔
مظاہرین کی یہ جارحانہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب جمعرات کو امریکہ، روس، یورپی یونین اور یوکرین کے اعلیٰ نمائندے یوکرین بحران پر تبادلۂ خیال کے لیے جنیوا میں ملاقات کرنے والے ہیں۔
امریکی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں خطے میں کشیدگی اور فوجی نقل و حرکت میں کمی، یوکرین میں آئینی اصلاحات اور روسی نژاد آبادی کے علاقوں کو مزید خودمختاری دینے، اور یوکرین میں 25 مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے انعقاد پر بات چیت کی جائے گی۔
بدھ کو امریکی محکمۂ خارجہ کی ایک ترجمان نے یہ بیان بھی دیا ہے کہ امریکہ روس کے خلاف نئی پابندیوں کی تفصیلات طے کر رہا ہے جو یوکرین کا بحران جاری رہنے کی صورت میں ماسکو حکومت پر عائد کی جائیں گی۔
دوسری جانب روس نے یوکرین کی جانب سے روسی بولنے والے مظاہرین کے خلاف فوجی کاروائی کو "غیر آئینی" قرار دیتےہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر یوکرینی فوج نے مظاہرین پر حملہ کیا تو روس جنیوا مذاکرات کا بائیکاٹ کردے گا۔
روس کے وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ مشرقی یوکرین میں جاری احتجاج اسی صورت میں ختم ہوگا جب یوکرینی حکومت علاقے میں بسنے والی روسی نژاد آبادی کے تحفظات کا ازالہ کرے گی۔