سنگاپور دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے لیبارٹری میں تیار کیے گئے گوشت کی فروخت کی اجازت دی تھی لیکن تقریباً ڈھائی سال گزرنے کے بعد بھی وہاں اب بھی اس نئی صنعت سپلائی کے مسائل اور عوامی قبولیت جیسی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
لیبارٹری میں گوشت بنانے کے لیے جانوروں سے حاصل کردہ خلیات کی افزائش کی جاتی ہے جس سے حاصل ہونے والا گوشت اپنی ساخت اور ذائقے میں حقیقی جانوروں کے گوشت جیسا ہوتا ہے۔
ایسے وقت میں جب ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں خوراک کی عالمی کمی کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے اس پروڈکٹ کو متعدد مسائل کا ممکنہ حل سمجھا جا رہاتھا ۔
جنوب مشرقی ایشیا آب و ہوا کی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطوں میں شامل ہے۔ حالیہ گرمی کی لہر سے پورا خطہ متاثر ہوا ہے جس سے فصلوں کو نقصان بھی پہنچا ۔ اس لیے خوراک کا تحفظ خطے کے ممالک کی ایک ترجیح بن گئی ہے۔
زمین کی کمی کے سبب سنگاپور میں یہ مسئلہ اور بھی زیادہ سنگین ہے جہاں 90 فی صد خوراک درآمد کرنی پڑتی ہے۔
ایسے گوشت تک رسائی اور اس کی مسلسل فراہمی کو ممکن بنانا، سنگا پور کی خوراک سے متعلق پالیسی میں شامل ہے۔
2030 تک اپنی غذائی ضروریات کا 30 فی صد مقامی طور پر پیدا کرنا سنگاپور کے اہداف میں شامل ہے۔
کرونا کی عالمی وبا کے دوران خوراک کی برآمدات پر مرتب ہونے والے اثرات سنگاپور کے لیے ایک اور وارننگ تھی۔
’چکن رائس‘ کو سنگاپور کی قومی ڈش تصور کیا جاتا ہے لیکن اس کے پڑوسی ملک ملائیشیا نے گزشتہ برس خوراک کی عالمی کمی کی وجہ سے سنگاپور کو چکن کی برآمد پر پابندی لگا دی تھی۔
’ہیوبرز بچری اینڈ بِسترو‘ سنگاپور کاواحد ایسا ریستوران ہے جو لیب میں تیار کردہ چکن کی ڈشز صارفین کو پیش کرتا ہے۔اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آندرے ہوبر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دوسرے ممالک سے چکن کے حصول کے لیے کوششیں کرنی پڑتی ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ اسی لیے حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں اپنی خوراک خود پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ہمارے پاس زمین یا جانور نہیں ہیں۔اس لیے ہم اپنی ضرورت کا گوشت لیباٹری میں تیار کر سکتے ہیں۔
سنگاپور نے دسمبر 2020 میں لیبارٹری میں تیار کردہ چکن کی فروخت کی اجازت دی تھی جس کے بعد لیب میں گوشت تیار کرنے والی ایک امریکی کمپنی ’ گڈ میٹ‘ کی پروڈکٹس ہیوبرز بچری اینڈ بِسترو میں دستیاب ہیں لیکن ان کی فراہمی محدود ہے۔
لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت کے لیے صارفین کی قبولیت اس صنعت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو سکتی ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے کے نائب سربراہ ہوانگ ڈیجیان اس گوشت کے مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بہت سی بنیادیں پہلے ہی رکھی جا چکی ہیں اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آئندہ پانچ برسوں میں لوگوں کو لیب میں تیار کردہ گوشت چکھنے کا موقع مل سکتا ہے۔
انہوں نے لیب میں تیار شدہ گوشت کے بارے میں کہا کہ اس کا مستقبل کافی روشن ہے۔
( شرمین لی ، وائس آف امریکہ نیوز)