برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق معاہدے پر برطانیہ کی حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں جس کے بعد بریگزٹ کا معاملہ مزید گھمبیر ہوگیا ہے۔
برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مے نے اپنی ہی جماعت 'کنزرویٹو' کے بیشتر ارکان کی جانب سے بریگزٹ معاہدے کی مسلسل مخالفت کے بعد حزبِ اختلاف کے ساتھ مذاکرات شروع کیے تھے تاکہ مجوزہ معاہدہ پارلیمان سے منظور کرایا جاسکے۔
لیکن جمعے کو لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن نے ایک خط کے ذریعے وزیرِ اعظم کو مطلع کیا ہے کہ حکومت اور ان کی جماعت کے درمیان تین اپریل کو جو مذاکرات شروع ہوئے تھے وہ مزید آگے نہیں بڑھ سکتے۔
قائدِ حزبِ اختلاف نے لکھا ہے کہ تھریسا مے کی حکومت عدم استحکام کا شکار ہے اور بریگزٹ کے معاملے پر اپنا موقف تبدیل کرنے سے انکاری ہے جس کے باعث اس سے مزید بات چیت جاری رکھنا لاحاصل ہوگا۔
جیریمی کوربن کے بقول طرفین مذاکرات کے ذریعے پالیسی اختلافات دور کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اگر کسی بات پر اتفاق ہو بھی گیا تو حکومت کی کمزوری اور عدم استحکام کے باعث یہ کہنا مشکل ہے کہ ان امور پر عمل درآمد بھی ہوسکے گا۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد لیبر پارٹی کے ارکان بھی پارلیمان میں تھریسا مے کے تجویز کردہ بریگزٹ معاہدے کی مخالفت میں ووٹ دیں گے۔
لیکن وزیرِا عظم نے الزام لگایا ہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ایک اور ریفرنڈم کرانے یا نہ کرانے پر لیبر پارٹی میں موجود اختلافات کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوئے ہیں۔
برطانوی پارلیمان بریگزٹ کے اس معاہدے کو تین بار مسترد کرچکی ہے جس پر تھریسا مے کی حکومت نے کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد یورپی یونین کے ساتھ اتفاق کیا تھا۔
مجوزہ معاہدے کو بعض تبدیلیوں کے بعد چوتھی بار آئندہ ماہ پارلیمان کے سامنے پیش کیا جانا ہے جس سے قبل وزیرِا عظم تھریسا مے اس کی منظوری کے لیے درکار ووٹوں کا حصول یقینی بنانے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہی ہیں۔
گزشتہ روز ہی وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ وہ پارٹی کے ناراض ارکان کی خواہش کے احترام میں جون میں پارلیمان کے سامنے مجوزہ معاہدے کا مسودہ پیش کرتے ہی نئے وزیرِ اعظم کے انتخاب کے شیڈول کا اعلان کردیں گی۔
برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ نظر ثانی شدہ معاہدے میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ارکانِ پارلیمان کے تحفظات کا ازالہ کیا جاسکے۔
لیکن اب لیبر پارٹی کی جانب سے بھی معاہدے کی مخالفت کرنے کے اعلان کے بعد بظاہر لگتا ہے کہ یہ معاہدہ یا تو ایک بار پھر ناکامی سے دوچار ہوگا یا اس پر رائے شماری موخر کردی جائے گی۔
برطانوی پارلیمان کی جانب سے بار بار مجوزہ معاہدہ مسترد کیے جانے کے باعث بریگزٹ کی تاریخ میں پہلے ہی توسیع کی جاچکی ہے اور اب اس کے لیے 31 اکتوبر کی تاریخ مقرر ہے۔