پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ان تین ہزار سے زائد خواتین کو ملازمتوں پرمستقل کر دیا گیا ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے دیہی علاقوں میں بطور ہیلتھ ورکرز خدمات انجام دے رہی تھیں۔
ان خواتین کو 1994ء میں وفاقی حکومت کی طرف سے شروع کیے گئے بہبود آبادی کے ایک پروگرام کے تحت گاؤں کی سطح پر تعینات کیا گیا تھا جہاں ان کی ذمہ داری ماؤں اور بچوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا تھا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے حکومت کو 2012ء میں ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ملازمتیں مستقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
لیکن وفاقی حکومت کی طرف پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت کو فنڈز فراہم نہ کرنے کی وجہ سے ان خواتین کی ملازمتیں مستقل نہیں ہوسکی تھیں۔ فنڈز کی کمی کے باعث کشمیر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز گزشتہ سات ماہ سے ماہانہ تنخواہ سے بھی محروم تھیں۔
پاکستانی کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں ان تین ہزار سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل ملازمت فراہم کرنے کے لیے قانون سازی کی گئی۔
کشمیر کے محکمہ بہود آبادی کی پروگرام آفیسر برائے لیڈی ہیلتھ ورکرز ڈاکٹر شفق ملک نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ عارضی بنیادوں پر کام کرنے والی ان خواتین کے پاس ہر گاؤں میں پیدائش اور اموات اور بیماروں کے بارے میں اعداو شمار موجود ہو تے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ملازمتوں کی مستقلی سے گاؤں کی سطح پر بنیادی صحت سے متعلق سے پیدا ہونے والے مسائل میں کمی آئے گی ۔