لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت سے تحریکِ انصاف کے ''حقیقی آزادی مارچ '' میں توڑ پھوڑ کے مقدمے میں نامزد رہنماؤں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کی ضمانت مںظور ہوگئی ہے۔
عدالت نے تحریکِ انصاف کے رہنماؤں حماد اظہر، سینٹر اعجاز چوہدری، شفقت محمود، محمود الرشید، یاسمین راشد، عندلیب عباس، اسلم اقبال، مراد راس، یاسر گیلانی، زبیر خان نیازی، امتیاز محمود شیخ اور ندیم عباس سمیت 12 رہنماؤں کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
تاہم بعدازاں پی ٹی آئی رہنماؤں نے ضمانت قبل از وقت گرفتاری کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ عدالت نے تمام ملزمان کو ایک، ایک لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے7 1 جون تک ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی ہے۔
واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی کال پر گزشتہ ماہ پی ٹی آئی نے اسلام آباد کی جانب مارچ کیا تھا۔ اس موقع پر لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں ہنگامہ آرائی کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔
لاہو پولیس نے توڑ پھوڑ کے الزام کے مقدمے میں نامزد پی ٹی آئی کے مذکورہ رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے عدالت میں درخواست دی تھی۔
پولیس نے پی ٹی آئی رہنماؤں پر درج مقدمات میں الزام عائد کیا ہے کہ گزشتہ ماہ 25مئی 2022 کو پی ٹی آئی کے کارکنان کے اسلام آباد لانگ مارچ کے دوران دفعہ 144 خلاف ورزی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مبینہ حملے کیے۔
درج مقدمات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کارکنوں کے مبینہ حملوں میں تین پولیس اہلکار ڈیوٹی کے دوران ہلاک اور 100 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے جمعے کو شاہدرہ پولیس تھانے کی درخواست پر پی ٹی آئی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
’مارچ پر امن تھا‘
وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیا الرحمن کے مطابق عدالت سے ضمانت کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے حماد اظہر کا کہنا تھا کہ وہ پرامن مارچ کے لیے نکلے تھے۔ ان میں کوئی دہشت گرد نہیں ہے۔ سابق وفاقی وزیر نے الزام عائد کیا کہ دہشت گردی کی دفعات رانا ثناءاللہ کی ہدایت پر لگائی گئی ہے۔
اِس دوران تحریکِ انصاف کی رہنما عندلیب عباس کا کہنا تھاکہ امپورٹڈ حکومت میں پی ٹی آئی کی خواتین پر دہشت گردی کی دفعات لگانا قابل مذمت ہے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھاکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کرنا قابل افسوس ہے۔ جس سے حکومت کی بوکھلاہٹ ظاہر ہوتی ہے۔
تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے پارٹی رہنماؤں کے وارنٹ جاری ہونے پر شدید تنقید کی ہے۔
لانگ مارچ پر سپریم کورٹ میں رپورٹ
اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی کے آزادی مارچ سے متعلق کیس میں رپورٹ عدالتِ عظمٰی میں جمع کرا دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق عدالتِ عظمٰی نے مظاہرین کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے منع کر رکھا تھا۔ اِس کے باوجود سابق وزیرِاعظم عمران خان نے پی ٹی آئی کے کارکنوں اور مظاہرین کو ریڈ زون میں داخل ہونے کی ہدایات جاری کیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کے لیے کہا تھاجس کے بعد 700 سے زائد پی ٹی آئی کے اہل کار ریڈ زون میں داخل ہو گئے۔
مظاہرین کو روکنے کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے روکنے کی کوشش کی لیکن احتجاج کے شرکا نے رکاوٹیں ہٹا دیں۔
رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکن ڈنڈوں اور اسلحہ سے لیس تھے جنہیں روکنے کے لیے پولیس نے آنسوگیس کا استعمال کیا۔ اِس دوران اکیس شہری زخمی ہو گئے۔
عدالتِ عظمٰی میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے عدالتی حکم پر رکاوٹیں ہٹائیں تا کہ مظاہرین ایچ نائن گراؤنڈ پہنچ سکیں۔ جہاں عدالت نے اُنہیں جلسہ کرنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن گزشتہ ماہ 25 اور 26 مئی کی درمیانی شب پی ٹی آئی کے کارکن رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے ریڈ زون میں داخل ہو گئے تھے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فواد چوہدری، عمران اسماعیل اور زرتاج گل سمیت دیگر رہنما کارکنان کو اشتعال دلاتے رہے۔ پولیس نے پی ٹی آئی رہنماؤں کے ویڈیوکلپس اور سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے پیغامات کو بھی اپنی رپورٹ کا حصہ بنایاہے۔
آئی جی اسلام آباد پولیس کی جانب سے عدالت مین جمع کرائی گئی رپورٹ میں عمران خان کو لانگ مارچ میں ڈی چوک پر بدنظمی کا ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ تحریکِ انصاف نے 25 مئی کو اسلام آباد کی جانب مارچ کیا تھا۔ پشاور سے عمران خان کی قیادت میں قافلہ 26 مارچ کی علی الصباح اسلام آباد پہنچا تو انہوں نے حکومت کو نئے انتخابات کے اعلان کے لیے چھ روز کی ڈیڈ لائن دے کر اچانک مارچ ختم کر دیا تھا۔
بعدازاں عمران خان نے حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کسی بھی قسم کے معاہدے کے تاثر کو رد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اگر وہ اسلام آباد میں دھرنا دے دیتے تو خون خرابے کا خدشہ تھا۔ واضح رہے کہ تحریکِ انصاف کے رہنما مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسمبلیاں تحلیل کر کے جلد نئے انتخابات کرائے جائیں۔