پاکستان کے وسطی صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پیر کی سہ پہر ہونے والے ایک دھماکے میں کم از کم 25 افراد ہلاک جب کہ 40 سے زائد زخمی ہیں۔
ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹر حیدر اشرف کے مطابق دھماکا پاکستانی وقت کے مطابق تین بج کر ستاون منٹ پر فیروز پور روڈ پر واقع ارفع کریم آئی ٹی ٹاور کے نزدیک کوٹ لکھ پت سبزی منڈی کے قریب ہوا۔
سی سی پی او لاہور امین وینس نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ یہ خودکش حملہ ہو سکتا ہے لیکن اس بارے میں فوری طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
امین وینس نے بتایا کہ جاں بحق ہونے والے افراد میں کئی پولیس اہلکار شامل ہیں۔
دھماکے کی اطلاع ملتے ہی پاک فوج اور رینجرز کے دستوں نے موقع پر پہنچ کر علاقے کا گھیراؤ کر لیا۔
دھماکے کے بعد پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ جہاں یہ دھماکا ہوا وہاں لوگوں کا کافی رش تھا۔
’’دہشت گردی کے ایسے واقعات (ماضی میں) ہوئے ہیں جن میں عام شہریوں کو نشانہ بنا کر خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔۔۔ تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عام لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہو یا ارفع کریم ٹاور کو جو ایک بڑی عمارت ہے اس عمارت کو نشانہ بنانے کا ہدف ہو، بہرحال اس بارے میں کوئی حتمی بات کرنا مناسب نہیں۔‘‘
رانا ثنا اللہ نے افغانستان کا نام لیے بغیر کہا کہ ’’دہشت گرد جو ہمارے ملک کی سرحدوں کی دوسری طرف موجود ہیں اور انھیں وہاں پر مختلف ہمارے پاکستان دشمن قوتوں کی سرپرستی حاصل ہے ان کی معاونت حاصل ہے اور اس کی بنیاد کے اوپر وہ ہر وقت کوشاں ہوتے ہیں کہ وہ کسی نا کسی جگہ پر کوئی نا کوئی طریقہ کار اختیار کر کے اس قسم کے خوف و ہراس پھیلائیں۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستانی عہدیداروں کا موقف ہے کہ پاکستانی طالبان نے سرحد پار افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے جہاں سے وہ ملک میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
جب کہ افغانستان بھی پاکستان میں افغان طالبان کی پناہ گاہوں کا الزام لگاتا رہا ہے۔
لاہور کے جنرل اسپتال میں موجود پنجاب کے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق نے بتایا کہ 49 زخمی اب بھی لاہور کے مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ ’’جتنی بھی کوشش کی جا سکتی ہے، ڈاکٹروں کی طرف سے نرسوں کی طرف سے وہ ہم کر رہے ہیں۔‘‘
کمشنر لاہور ڈویژن عبداللہ خان سنبل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
پنجاب حکومت کے ترجمان کے مطابق واقعے کے وقت علاقے میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا جارہا تھا جس کے لیے حکومت کا عملہ اور پولیس کی نفری جائے وقوعہ پر موجود تھی۔
دریں اثنا کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے ایک بیان میں حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ خودکش بمبار نے موٹر سائیکل بم کا استعمال کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔