رسائی کے لنکس

فاسٹنگ بُدھا،لاہور میوزیم کی شان


فاسٹنگ بُدھا،لاہور میوزیم کی شان
فاسٹنگ بُدھا،لاہور میوزیم کی شان

فاسٹنگ بُدھا کا مجسمہ جسے فاسٹنگ سدھارتھا بھی کہا جاتا ہے، گندھارا تہذیب کا نمائندہ ہے۔ اس تہذیب پر بُدھ مت کے گہرے اثرات تھے اور یہ اہنسا یعنی عدم تشدد کی داعی تھی تاہم اب یہ ستم ظریفی دکھائی دیتی ہے کہ سوات، پشاور، دیر اور یہاں کے پہاڑی علاقے جو گندھارا تہذیب کا حصہ تھے اور جہاں اہنسا کا پرچار کیا جاتا تھاوہاں آج کل جنگجوؤں نے تشدد کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ لاہور میوزیم کی گندھارا آرٹ گیلیری میں البتہ اب بھی داخل ہوں توصدیوں پرانے اس ورثہ کی وجہ سے ایک سکون سا محسوس ہوتا ہے۔ ویسے تو لاہور میوزیم عجائبات سے بھرا ہوا ہے اور اس میں پتھر کے دور سے لے کر جدید زمانے کی تہذیبوں کا عکس موجود ہے مگر یہاں کی گندھارا آرٹ گیلری میں موجود فاسٹنگ بدھا کا یہ مجسمہ اس میوزیم کی شان سمجھا جاتا ہے۔

پشاور میوزیم کے بعد گندھارا تہذیب کے سب سے زیادہ نوادارات لاہور کے عجائب گھر میں ہیں۔ یہاں کی گندھارا آرٹ گیلری اس لحاظ سے انفرادیت کی حامل ہے کہ اس میں فاسٹنگ بُدھا کا بے مثال مجسمہ موجود ہے جو یہاں آنے والے ہر شخص کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔

تاریخی طور پر پشاور ، دیر اور سوات کے پہاڑی علاقوں اور مشرق میں دریائے سندھ کے پار ٹیکسلا تک کے علاقے کو گندھارا کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ چھٹی سے چوتھی صدی قبل مسیح میں حخمانیشی سلطنت Achaemenian Empireکاحصہ تھا لیکن یہاں گندھارا آرٹ، بدُھ مت کے زیر اثر پہلی سے پانچویں صدی عیسوی تک پروان چڑھا۔

برصغیر میں بُدھ مت کو اشوکِ اعظم کے دور میں پذیرائی ملی جب اس شہنشاہ نے ایک لڑائی میں لاتعداد ہلاکتیں دیکھ کر جنگ سے نفرت کرنا شروع کردی اور عدم تشدد کا مذہب بُدھ مت اختیار کرلیا۔ اس مذہب کے زیرِ اثر گندھارا تہذیب پروان چڑھی اور آج بھی یہاں اس تہذیب کے آثار ملتے ہیں مگر ستم ظریفی کی بات ہے کہ اہنسا اور عدم تشدد کی داعی اس تہذیب کے علاقے میں آج کل جنگجوؤں نے تشدد کا بازار گرم کیا ہوا ہے اور ان کی دہشت سے گندھارا تہذیب کی باقیات تک محفوظ نہیں ہیں۔

اکثر یہ بھی سُننے میں آتا ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے انتہائی نفیس مجسّموں کو بُت قرار دے کر بموں سے اُڑا دیا۔ افغانستان میں بامیان کے بین الاقوامی شہرت کے حامل مجسّمے بھی اُس دور کی طالبان حکومت نے بموں سے تباہ کردیئے تھے۔

فاسٹنگ بُدھا،لاہور میوزیم کی شان
فاسٹنگ بُدھا،لاہور میوزیم کی شان

لاہورمیوزیم کی گندھارا آرٹ گیلر ی میں داخل ہوں تو وہاں موجود صدیوں پرانا ورثہ اب بھی شائقین کو ایک سکون سا فراہم کرتا ہے۔ پوری آرٹ گیلری اس تہذیب کے نوادرات سے بھری نظر آتی ہے اور نظر کہیں ٹھہرتی نہیں۔ اگر ٹھہرتی ہے تو ایک مجسمے پر جاکر، جس کو فاسٹنگ بُدھا یا فاسٹنگ سدھارتا کہتے ہیں۔ نوادرات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ مجسمہ دوسری صدی عیسوی میں بنایا گیا تھا جسے خیبر پختون خواہ صوبے میں انگریز دور میں کھدائی کے دوران نکالا گیا ۔ لاہور میوزیم کے عہدیدار مزمل حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 80 کی دہائی کے وسط میں حکومت ِ جاپان کی درخواست پر یہ مجسمہ جاپان لے جایا گیا تھا جہاں یہ چھ ماہ تک رہا اور جاپان میں اس کی بے مثال پذیرائی ہوئی۔

لاہور میوزیم کی پبلک ریلیشن آفیسر ثوبیہ طاہر نے وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ گندھارا آرٹ اور فاسٹنگ بُدھا کے مجسمے کو دیکھنے بڑی تعداد میں لوگ چین، جاپان ، تھائی لینڈ، کوریا، تبت،برما اور سری لنکا سے آتے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ ابھی حال ہی میں سری لنکا کی پارلیمنٹ کا ایک وفد لاہور میوزیم آیا تھا اور اس وفد کےتمام ارکان کی توجہ کا مرکزگندھارا آرٹ گیلری اور وہاں موجود فاسٹنگ بُدھا کا مجسمے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ لاہور میوزیم کے زیرِ اہتمام یورپ کے کئی ملکوں میں بھی گندھارا آرٹ کی نمائشیں ہوچکی ہیں اور امکان ہے کہ امریکہ کے شہر نیو یارک میں بھی جلدہی گندھارا آرٹ کی ایک نمائش ہوگی۔

ثوبیہ طاہر میوزیم کے دیگر عہدیداروں اور نوادرات کے ماہرین کی اس سلسلے کی ہم زبان تھیں کہ لاہور میوزیم میں فاسٹنگ بُدھا سے زیادہ قیمتی کوئی شے نہیں ہے۔ گندھارا آرٹ گیلری دیکھنے آئے جن لوگوں سے بات ہوئی اُنہوں نے بھی فاسٹنگ بُدھا کے مجسمے کی بہت تعریف کی۔ ان میں سے ایک شخص کا کہنا تھا کہ یہ مجسمہ لاہور میوزیم کی شان ہے

XS
SM
MD
LG