رسائی کے لنکس

لاہور ہائی کورٹ نے راوی ریور منصوبہ کالعدم قرار دے دیا


لاہور ہائی کورٹ نے دریائے راوی کے کنارے نیا شہر آباد کرنے کا حکومتی منصوبہ راوی اربن ڈویلپمنٹ کالعدم قرار دے دیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شاہد کریم نے منگل کو راوی اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ سے متعلق محفوظ درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ منصوبے کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور اس کا کوئی ماسٹر پلان بھی مرتب نہیں کیا جا سکا۔ لہذٰا ماسٹر پلان کے بغیر بنائی گئی کوئی بھی اسکیم غیر قانونی ہوتی ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کا ماسٹر پلان بنیادی دستاویز ہے۔ قانون کے تحت تمام اسکیمیں ماسٹر پلان کے ماتحت ہوتی ہیں۔ روڈا ترمیمی آرڈیننس کی دفعہ 4 آئین کے آرٹیکل 144 اے سے متصادم ہے۔ روڈا کا ترمیمی آرڈیننس بھی قانونی تقاضے پورے نہیں کر سکا۔

جسٹس شاہد کریم نے فیصلے میں لکھا کہ روڈا کا ترمیمی آرڈیننس آئین سے متصادم اور غیر قانونی ہے۔ زرعی اراضی اسی وقت ایکوائر کی جاسکتی ہے جب باقاعدہ ایک لیگل فریم ورک موجود ہو۔ زرعی اراضی قانونی طور پر ہی ایکوائر کی جا سکتی ہے۔

منصوبے کے تحت دریائے راوی کے کنارے نیا شہر آباد کرنے کا منصوبہ تھا۔
منصوبے کے تحت دریائے راوی کے کنارے نیا شہر آباد کرنے کا منصوبہ تھا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 1894کے قانون کی خلاف ورزی کر کے زمین ایکوائر کی گئی۔ دفعہ 4 کا ایکوائرمنٹ کا نوٹی فکیشن غیر قانونی ہے۔ لاہور اور شیخوپورہ کے کلکٹرز زمین ایکوائر کرنے میں قانون پر عمل کرنے میں ناکام رہے۔

عدالت نے روڈا اتھارٹی کو حکم دیا کہ منصوبے کی تکمیل کے لیے پنجاب حکومت سے لیا گیا قرضہ دو ماہ میں واپس کیا جائے۔
واضح رہے عدالت نے راوی اربن پراجیکٹ سے متاثرہ افراد کی درخواستوں پر گزشتہ سال دلائل مکمل ہونے پر 21 دسمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

درخواست گزار کے وکیل وقار اے شیخ نے عدالتی فیصلے پر کہا کہ زمین ایکوائر کرنے سے متعلق روڈا ایکٹ کی دفعہ 29، 30 اور 31 آئین کے آرٹیکل 24 سے متصادم ہے۔ روڈا ایکٹ کی دفعہ 29 اور 30 بھی مبہم ہیں۔

وکیل درخواست گزار کے مطابق روڈا اتھارٹی کا موازنہ ایل ڈی اے سے نہیں کیا جا سکتا۔ روڈا اتھارٹی کے بورڈ میں تمام بیورو کریٹس شامل ہیں۔ ایل ڈی اے کا چیئرمین وزیراعلی ہوتا ہے اور ایل ڈی اے کے بورڈ میں عوامی نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں لیکن روڈا میں کوئی بھی عوامی نمائندہ شامل نہیں۔

وقار اے شیخ کے مطابق روڈا ایکٹ کے تحت عوام کے اختیارات غیر منتخب افراد کو دے دیے گئے۔ روڈا ایکٹ جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ میں بھی عوام کے منتخب افراد شامل ہوتے ہیں۔

وکیل روڈا بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ صوبائی اسمبلی میں روڈا کا بجٹ منظور ہو چکا ہے جب بھی کوئی پراجیکٹ بجٹ میں شامل ہو چکا ہو تو پھر اس کی نوعیت الگ ہو جاتی ہے۔

چیئرمین راوی اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ عمران امین کہتے ہیں کہ عدالت کی جانب سے تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد قانونی ٹیم کی مشاورت سے عدالتی فیصلے پر لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔

وائس آف امریکہ سےگفتگو کرتے ہوئے چیئرمین روڈا عمران امین نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق زمین کے حصول کا طریقٔہ کار ٹھیک نہیں ہے۔ جس پر عدالت نے اعتراضات اُٹھائے ہیں۔ اور یہ دو ہزار ایکٹر کی بات ہے جب کہ بقیہ منصوبہ اُسی طرح سے چل رہا ہے۔

عمران امین نے مزید کہا کہ وہ اپنی قانونی ٹیم کی مشاورت سے اِس فیصلے کو چیلنج کریں گے۔

راوی اربن منصوبہ ہے کیا؟

واضح رہے کہ وزیرِاعظم عمران خان نے 15 ستمبر 2020 کو شیخوپورہ کے علاقے کالا خطائی کے مقام پر راوی ریور اربن پراجیکٹ کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔ جس پر جاری ترقیاتی کاموں پر وہ وقتاً فوقتاً حکام سے بریفنگ بھی لیتے رہتے تھے۔ وزیرِ اعظم عمران خان اس منصوبے میں خاصی دلچسپی لیتے رہے ہیں۔

اِس منصوبے کے تحت دریائے راوی کی گزر گارہ میں 46 کلومیٹر طویل جھیل بننا تھی اور ایک بڑے پیمانے پر مصنوعی جنگل بھی اِس منصوبے کا حصہ ہے۔ منصوبے کے تحت 12مختلف مخصوص شہر بسائے جانے تھے۔ منصوبے کے تحت مختلف صنعتی زون اور آئی ٹی زون بھی بننا تھے۔

یاد رہے راوی اربن پراجیکٹ کے لیے زمین کے حصول کے لیے مقام لوگوں نے متعدد بار منصوبے کے خلاف احتجاج کیا۔ جن کا کہنا تھا کہ اُن سے زبردستی اِس منصوبے کے لیے زمینیں حاصل کی جا رہی ہیں۔ منصوبے کے خلاف مختلف ماحول دوست تنظیموں نے بھی عدالت سے رجوع کر رکھا تھا۔

وزیرِاعلٰی پنجاب عثمان بزدار بھی اِس منصوبے کے حوالے سے جاری کاموں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ منصوبے کے لیے ابتدائی طور پر چوالیس ہزار ایکٹر زمین کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جن میں سے چھ ہزار ایکٹر اراضی پر انڈسٹریل زون بننا تھے جب کہ تین بیراج بھی اِس منصوبے کا حصہ ہیں۔

خیال رہے کہ ماضی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں بھی اِس منصوبے پر کام کے حوالے سے متعدد اجلاس ہوتے رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG