کسی بھی مک میں ہونے والے انتخابات میں خواتین کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اور یہ کردار وہ تبھی نبھا سکتی ہیں اگر خواتین کو برابری کا حق دیا جائے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ یعنی کہ 20 کروڑ میں سے 10 کروڑ خواتین ہیں۔ مگر نادرا کے مطابق 97 ملین کی آبادی کے پاس شناختی کارڈ موجود ہے جس میں سے 43 ملین عورتیں اور 55۔6 ملین مرد شامل ہیں جس سے صنفی انتخابی فرق 12۔5 ملین پر پہنچ جاتا ہے۔
اس فرق کا اثر ہر صوبے کے انتخابات پر ہوتا ہے۔ 2017 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں خیبر پختونخواہ کے ضلع اپر دیر میں خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے کی صورت میں الیکسن کمیشن نے 2017 میں ایلکشن منشور میں اس بات کو واضع کر دیا کہ 10 فیصد سے کم اگر خواتین ہوئیں تو وہ الیکشن منسوخ کر دیا جائے گا۔
پاکستان کے بہت سے علاقوں میں مذہبی اور پدرانہ نظام کی بندشوں کی وجہ سے خواتین ووٹ نہیں ڈال سکتیں۔ چونکہ ان کا شناختی کارڈ ہی نہیں بنا ہوتا اس لے ان کا ووٹ ہی رجسٹر نہیں ہوتا۔
دوسرے صوبوں کی طرح شمالی پنجاب کے علاقوں میں بھی خواتین ووٹ نہیں ڈال سکتیں۔ مگر خوش آئیند بات یہ ہے کہ لاہور میں اس بار تمام شہروں سے زیادہ خواتین ووٹر رجسٹر ہوئی ہیں۔
لاہور کی کل خواتین رجسٹرڈ ووٹر کی تعداد 2386362 ہے۔ یہ ووٹر 14 حلقوں میں بٹی ہوئے ہیں۔ اسی طرح ان کی ترجیحات بھی بٹی ہوئی ہیں۔
اگر لاہور کی خواتین ووٹرز کو دیکھا جائے تو ہم انہیں چار حصوں میں بانٹ سکتے ہیں۔
1۔ ایک وہ خواتین جن کا شمار ان 10 ملین پاکستانی خواتین میں ہوتا ہے جو اس بار الیکشن میں حصہ نہیں لے پائیں گی۔ اس کی وجہ ان کا ووٹ رجسٹر نہ ہونا ہے۔
2۔ وہ خواتین جن کا ووٹ تو رجسٹرڈ ہے مگر وہ سیاسی رہنماؤں کی کارکردگی سے مایوس ہو کر ووٹ نہیں ڈالتیں۔
3۔ وہ خواتین جو ووٹ گھر کے مرد کی پسندیدہ پارٹی کو ہی ووٹ ڈالتی ہیں اور اپنے حلقہ نمبر یا نمائندے سے بےخبر ہیں۔
4۔ وہ خواتین جو باشعور ہیں اور اپنے ووٹ کا ستعمال اپنی مرضی سے کرتی پیں اور اپنے من پسند نمائندے کو ہی دیتی ہیں۔
لاہور کے مختلف حلقوں سے تعلق رکھنے والی ان خواتین کو اس بار دو بڑی پارٹیوں کے بیچ چننا ہے۔
لاہور میں اس بار دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کا کانٹے کا مقابلہ ہے مگر لاہور کی خواتین کی نظر سے دیکھا جائے تو تحریک انصاف کا پلڑا بھاری رہا۔
این اے 129 کی ایک ٹیچر معصومہ سرفراز کہتی ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے نمائندے علیم خان کو ووٹ دیں گی کیونکہ وہ تبدیلی دیکھنا چاہیتی ہیں۔
معصومہ چاہتی ہیں کہ آنے والی حکومت خواتین کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ اس کے علاوہ ان کو یکساں مواقع بھی میسر کیے جایئں ۔
این اے 129 کی ایک اور ووٹر رضوانہ طاہر جن کی عمر 28 سال ہے، کہتی ہیں کہ ان کا ووٹ پاکستان تحریک انصاف کے لیے ہے۔ ان کو خواتین کے لیے یکساں نوکریوں کے مواقع اور آزادی کی خواہش ہے۔
اسی حلقے کی ووٹر سعدیہ سب پارٹیوں سے مایوسی کے باعث اس بار ووٹ ہی نہیں ڈال رہی ہیں۔
این اے 124 کی ووٹر رجب جو اس بار پہلی دفعہ ووٹ ڈال رہی ہیں، کہتی ہیں کہ ووٹ پاکستان مسلم لیگ ن کا ہے ۔ وہ اس پارٹی کے نظریے کی وجہ سے ان کو ووٹ دے رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ میں عورتوں کی عزت دیکھنا چاہتی ہوں۔
جبکہ مریم گل جو اسی حلقے سے تعلق رکھتی ہیں، نظام سے مایوس ہو کر ووٹ نہ ڈالنے کے حق میں ہیں۔
این اے 125 کی ووٹر سیدہ اسلم بتول تحریک انصاف کی ووٹر ہیں اور وہ بھی دوسری خواتین کی طرح خواتین کے لیے حفاظتی اقدامات چاہتی ہیں۔
اسی حلقے کی جنت کے پاس شناختی کارڈ تو ہے مگر ان کا ووٹ رجسٹرڈ نہیں ہے۔
این اے 132 کی سنجیلہ کہتی ہیں کہ مسلم لیگ نون کو وہ ایک بار پھر آزمائیں گی اور شہباز شریف کو ہی ووٹ دیں گی۔ ان کا مہنگائی کو کم کرنے کا مطالبہ ہے۔
این ایے 131 کی چوبیس سالہ آمنہ شاہد کہتی ہیں کہ سب کو آزما کے دیکھ لیا اب نئی پارٹی کو موقع دینا چاہوں گی۔ اسی لیے عمران خان کو ووٹ دوں گی۔ یہ لڑکیوں کے لیے یکسان تعلیم کے مواقع چاہتی ہیں۔
این اے 132 کی چھبیس سالہ شازیہ بھی پاکستان تحریک انصاف کو ہی ووٹ دیں گی کیونکہ ان کے سسر پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹر ہیں۔
یہ بھی خواتین کے لیے یکساں مواقعوں کی خواہشمند ہیں۔
لاہور کی اکثر خواتین تو ایک نئی جماعت اور نئے نظریے کو موقع دینا چاہتی ہیں مگر آنے والا وقت ہی اس بات کا ضامن ہو گا کہ ان انتخابات میں لاہور کا تاج کس کے سر پر سجے گا؟