رسائی کے لنکس

لاہور: مزارات پر سکیورٹی سخت،رونقیں مزید ماند پڑ گئیں


داتا دربار لاہور
داتا دربار لاہور

ڈیرہ غازی خان کے قریب سخی سرور کی درگاہ پر حالیہ خود کش حملوں کے بعد حکومتِ پنجاب نے تمام مزارات عشاء کی نماز کے بعد بند کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ اہم درگاہوں پر رات کو پولیس کا پہرہ رہتا ہے ۔ مزاروں پر رات کو رونقیں اگرچہ پہلے ہی کافی کم ہوچکی تھیں مگر اس حکم کے بعد تو اکثر درگاہیں رات کے وقت ویرانی کی ایک تصویر بن جاتی ہیں

لاہور شہر میں چار سو کے قریب صوفیاء کرام کےایسے مزارات ہیں جہاں زائرین باقاعدہ حاضری دیتے ہیں اور ان بزرگوں کے سالانہ عرس بھی منائیں جاتے ہیں۔ ان درگاہوں کی اپنی ہی ثقافت ہے جو فرقہ بندی سے بالکل بے نیاز ہے۔ لاہور میں بی بی پاک دامن کے نام کی درگاہ کا تعلق اگرچہ شیعہ مسلک سے ہے مگر یہاں منت ماننے ہر فرقے کے لوگ آتے ہیں۔ اسی طرح داتا گنج بخش کے مزار پر بھی نہ صرف تمام فرقوں کے لوگوں کی حاضری رہتی ہے بلکہ ہندو اور سکھ بھی اس درگاہ کی زیارت کو آتے دیکھے گئے ہیں۔

صدیوں سے ان درگاہوں کی روایت رہی ہے کہ یہاں ہر کسی کو پناہ مل جاتی تھی ، کوئی د کھی مصیبت کا مارا ہو، بے گھر ہو یا بھلے کوئی نشے کا عادی ہو جب یہ لوگ ہر جگہ سے دھتکارے جاتے تو بزرگوں کی یہ درگاہیں ان کا ٹھکانہ بنتی تھیں۔ مگر جب سے بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا اور خاص طور پر اولیاء کرام کے مزارات دہشت گردوں کا نشانہ بننے لگے اس وقت سے سکیورٹی اقدامات میں اضافہ ہوا ہے جس کا براہِ راست اثر ان لوگوں پر پڑا ہے جو درگاہوں کو اپنا ٹھکانہ سمجھتے تھے۔

لاہور: مزارات پر سکیورٹی سخت،رونقیں مزید ماند پڑ گئیں
لاہور: مزارات پر سکیورٹی سخت،رونقیں مزید ماند پڑ گئیں

پنجاب حکومت نے اب یہ پابندی عائد کردی ہے کہ ان مزاروں کو عشاء کی نماز کے بعد بند کردیا جائے ۔اس حکم کی تعمیل میں ان درگاہوں پر رات کو پہرہ دیا جاتا ہے اور کسی کو درگاہ کے قریب پھٹکنے نہیں دیا جاتا ۔ لاہور میں صرف داتا گنج بخش کا مزار اور بی بی پاک دامن کی درگاہ رات دیر گئے تک کھلے رہتے ہیں کیونکہ یہاں حکومت کی طرف سے چوبیس گھنٹے سکیورٹی کا انتظام موجود ہے ، باقی درگاہوں پر اس حالیہ پابندی نے صدیوں پرانے مزارات کے کلچر کو بہت بُری طرح متاثر کیا ہے اور یہاں کی رات کی رونقیں تو بالکل ختم ہوچکی ہیں۔

لاہور میں شاہ جمال نام کی بڑی معروف درگاہ ہے یہاں سائیکل اور موٹر سائیکل سٹینڈ کے ٹھیکیدار محمد حنیف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رات ساڑھے آٹھ بجے مزار بند ہوجانے کی وجہ سے ان کا اندازہ ہے کہ اس برس وہ سٹینڈ کے ٹھیکے میں کچھ بھی کما نہیں سکیں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کا مالی نقصان تو ہو رہا ہے مگر جو اُجڑے بے گھر لوگ یہاں رات گزارا کرتے تھے وہ اُن سے بھی زیادہ پریشان ہیں۔ وہ آج کل اِدھر اُدھر پارکوں اور باغوں میں سونے کی کوشش کرتے ہیں تو پولیس اُنہیں بھگا دیتی ہے۔ یہ بیچارے تو کسی سے شکوہ بھی نہیں کرسکتے۔

لاہور: مزارات پر سکیورٹی سخت،رونقیں مزید ماند پڑ گئیں
لاہور: مزارات پر سکیورٹی سخت،رونقیں مزید ماند پڑ گئیں

لاہور گلبرگ کے علاقے میں بابا قطب شاہ کی ایک چھوٹی سی درگاہ ہے۔ یہ دو سڑکوں کے درمیان واقع ہے اور یہاں دیر گئے تک ٹریفک جاری رہتی ہے۔ اِس درگاہ پر چونکہ پولیس کا پہرہ نہیں ہے لہذا اکثر رات کے وقت چار پانچ نشئی لوگ یہاں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ اِن میں سے ایک نشئی نے اپنا نام شمی بتایا۔ اُس کا کہنا تھا کہ پہلے وہ دھرم پورہ میں میاں میر کی درگاہ پر ہوتا تھا مگر اب اس کے بقول وہاں پولیس کا قبضہ ہوگیا ہے لہذا وہ اس چھوٹی درگاہ پر پہنچا ہے کیونکہ یہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ شمی نے بتایا کہ وہ داتا دربار سے لنگر کھا کرشام کو چلا تھا اور اب رات کو یہاں پہنچا ہے۔

داتا دربار اگرچہ دِن رات کُھلا رہتا ہے مگر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کی وجہ سے یہاں پہلے جو مسافروں، بے گھر لوگوں اور نشئیوں کو رات گزارنے کی سہولت تھی وہ اب ختم ہوگئی ہے ۔ دربار کے قرب وجوار میں بھی اِن لوگوں کو کہیں بیٹھنے یا لیٹنے نہیں دیا جاتا اور اکثر ملنگ بھی چلتے پھرتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں موجود ایک ملنگ بابا کا کہنا تھا کہ یہ جو" ٹو ں ٹوں" کی مشینیں ہیں (یعنی سکیورٹی گیٹس ) وہ ان کو بہت بُری لگتی ہیں۔ اس ملنگ نے لوہے کے درجن بھر کڑے پہنے ہوئے تھے اور کہہ رہا تھا کہ جب بھی وہ درگاہ پر حاضری کی کوشش کرتا ہے ٹوں ٹوں والی مشین بہت بولتی ہے جو اس کو بہت بُری لگتی ہے۔

لاہور: مزارات پر سکیورٹی سخت،رونقیں مزید ماند پڑ گئیں
لاہور: مزارات پر سکیورٹی سخت،رونقیں مزید ماند پڑ گئیں

اُس نے کہا کہ پولیس والے اُس کو اندر بھی بہت کم جانے دیتے ہیں۔ اس ملنگ نے بتایا کہ وہ کڑ ے اس کے پیروں کی نشانیاں ہیں جن کو وہ کسی طور پر بھی اپنے جسم سے الگ نہیں کرسکتا چاہے پولیس والے اُسےاندر جانے دیں یا نہ جانے دیں۔

داتا دربار کے علاوہ بی بی پاک دامن کی درگاہ میں بھی بہت سے سکیورٹی گیٹس لگے ہیں اور وہاں بھی جن لوگوں نے کڑے وغیرہ پہنے ہوتے ہیں اُن کو دِقّت پیش آتی ہے۔ اس درگاہ پر موجود ایک عمر رسیدہ خاتون آمنہ بی بی کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے بزرگوں کی درگاہوں پر یہ پابندیاں لگائی ہیں اُن کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔

داتا گنج بخش کے مزار پر تعینات محکمہ اوقاف کے اہلکار کلیم اللہ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ بم دھماکوں نے درگاہوں کا کچلر تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اس اہلکار کا کہنا تھا کہ جب سے داتا گنج بخش کے مزار پر دھماکے ہوئے ہیں بس سمجھیں تمام درباروں کی رونقیں ماند پڑ گئیں ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ حکومت کے لیے مزاروں کی حفاظت بہت بڑا چیلنج تو ہے ہی مگر جن ٹوٹے پھوٹے، اُجڑے اور بے گھر لوگوں کا یہ مزارات آسرا تھے وہ لوگ تو کہیں کے نہیں رہے، اُنہوں نے کہا کہ اکثر ایسے لوگ چھوٹے شہروں میں چلے گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG