خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع لکی مروت میں مبینہ عسکریت پسندوں نے سیکیورٹی فورسز کے ایک کیمپ پر جمعرات کی رات حملہ کیا ہے ۔
لکی مروت سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی حافظ منہاج الدین نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک زوردار دھماکے کے بعد فائرنگ کی آوازیں دور دور تک سنائی دے رہی ہیں ۔ تاہم ابھی تک سرکاری طور پر کسی قسم کا بیان جاری نہیں کیا گیا ہے ۔
حافظ منہاج الدین کا کہنا ہے کہ فوج کے ایک دستے نے لکی مروت کے پوسٹ گریجویٹ کالج میں کیمپ قائم کیا ہے اور اسی کیمپ میں زور دار دھماکہ ہوا ہے ۔ ایک غیرمعروف عسکریت پسند تنظیم تحریکِ جہاد نے ترجمان ملا محمد قاسم کے جاری کردہ بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتےہوئے اسے خودکش حملہ قرار دیا ہے۔
حافظ منہاج الدین نے بتایا کہ زوردار دھماکے کے بعد کالج میں قائم کیمپ کے اندر اور باہر سے فائرنگ کا سلسلہ تاحال جاری ہے مگر ارد گرد کے علاقے کے زیادہ تر لوگ گھروں تک محصور ہو چکے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس واقعے میں وسیع پیمانے پر جانی نقصان کا خدشہ ظاہر کیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ لکی مروت:ضلع کے اسپتالوں میں ایمرجنسی لگا دی گئی ہے اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر اکبر زمان نے تمام متعلقہ سٹاف کو فوری طور پر ہسپتال پہنچنے کا حکم دیا ہے ۔
حافظ منہاج الدین کا کہنا ہے کہ لکی مروت ضلع میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے باعث پاکستان آرمی اور فرنٹیئر کور کی نفری پوسٹ گریجویٹ کالج میں کئی مہینے سے مقیم ہے۔
ایک سرکاری عہدے دار نے نام نہ بتانے کی درخواست پر بتایا کہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں جمعرات کی رات 50 منٹ سے بھی کم عرصے میں سیکیورٹی اہل کاروں پر 3 حملے کیے گئے ہیں۔ یہ حملے بنوں، ٹانک اور لکی مروت میں ہوئے ہیں۔
ان حملوں میں سیکیورٹی فورسز کا ایک اہل کار ہلاک اور چار زخمی ہوئے ، جبکہ جوابی کارروائیوں میں تین دہشت گرد ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔
منگل، خیبرپختونخوا پولیس نے بتایا کہ لکی مروت میں پولیس اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ میں ایک پولیس اہل کار ہلاک اور دوسرا پولیس اہل کار زخمی ہوا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس جھڑپ میں تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے تین دہشت گرد بھی مارے گئے۔
پولیس نے بتایا کہ اس سے پہلے لکی مروت میں ایک سابق فوجی افسر کو بھی ٹارگٹڈ حملے میں ہلاک کیا گیا تھا۔
30 مارچ کو ضلع لکی مروت میں ایک دھماکے میں پولیس ڈی ایس پی اقبال مومند اور 3 سپاہی ہلاک ہوئے تھے۔ تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔
21 مارچ کو جنوبی وزیرستان کے علاقے انگور اڈا میں عسکریت پسندوں کے حملے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ایک سینئر افسر بریگیڈیئر مصطفیٰ کمال برکی اور ان کا ڈرائیور ہلاک ہو گئے تھے۔
انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ لکی مروت ڈگری کالج میں دھماکے کے بعد شدید فائرنگ جاری ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو محاصرے میں لے لیا ہے اور کلین اپ آپریشن شروع ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ ٹارگٹڈ واقعات جن میں پاک فوج کے اعلیٰ افسران کو نشانہ بنایا جاتا ہے اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد اور ان کا انٹیلی جنس نیٹ ورک متحرک اور منظم ہے۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ لکی مروت کے حالیہ واقعے کے حوالے سے جس میں ایک پولیس افسر ڈی ایس پی ہلاک ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی قابو سے باہر نہیں ہے اور مستقبل میں ایسا نہیں ہوگا۔ ہماری مسلح افواج پوری صلاحیت رکھتی ہیں اور وہ ہر روز خفیہ معلومات کی بنیاد پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہی ہیں۔ لیکن آپریشن کے باوجود دہشت گردی کے خطرات بدستور موجود ہیں اور تمام ایجنسیاں ایک دوسرے کی مدد سے اپنا فرض ادا کر رہی ہیں۔