بڑے اور چھوٹے کی بحث تقریباً ہم کسی نہ کسی انداز میں ہرروز سنتے ہیں، جو بڑے اور چھوٹے آدمی سے لے کر ملکوں اور کرہ ارض کی کم و بیش ہر چیز کے گرد گھومتی ہے۔ لیکن کائنات میں ہماری زمین کی حیثیت کیا ہے۔ شاید کچھ بھی نہیں۔
حال ہی میں سورج سے 320 گنا بڑے ستارے کی دریافت کے بعد اب سائنسی حلقوں میں یہ سوال گردش کررہاہے کہ اس کائنات کی سب سے بڑی چیزکونسی ہے۔
اس سے قبل دریافت ہونے والا سب سے بڑا سیارہ سورج سے 150 گنا بڑا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے ستاروں کا حجم بڑھتا ہے توان کے اندر توانائی کی مقدار کشش ثقل سے بڑھ جاتی ہے۔ جس سے ان کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا ممکن نہیں رہتا اوروہ ٹوٹ پھوٹ کر حصوں میں بٹ جاتے ہیں۔ کہکشائیں اور نظام شمسی اسی عمل کے ذریعے وجود میں آئے ہیں۔
نئے دریافت ہونے والے سیارے کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے بڑے حجم کی بنا پر اس کے لیے سورج کی طرح طویل عرصے تک اپناوجود برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
سورج کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ساڑھے چارارب سال سے زیادہ عرصے سے روشنی اور حرارت دے رہاہے اور ابھی تک اس کی کل کمیت کا ایک فی صد حصہ بھی توانائی میں تبدیل نہیں ہوا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ کائنات کا بنیادی جزو ستارہ ہے۔ ستارہ ایک سورج کی طرح ایک مرکز کے طورپر کام کرتا ہے جس کے گرد کئی سیارے گردش کرتے ہیں، جب کہ کئی سیاروں کے اپنے ذیلی چاند ہوتے ہیں جو ان کے گرد گھومتے ہیں۔
ستاروں کی ایک بڑی تعداد اکھٹی ہوکر کہکشاں بناتی ہے اور جب کئی کہکشائیں کسی ایک سلسلے میں مربوط ہوجاتی ہیں تو ایک کلسٹر یاجھنڈ وجود میں آتا ہے۔ کائنات میں کہکشاؤں کے بہت سے جھنڈ دریافت ہوچکے ہیں جن میں سے سب سے بڑے کلسٹر کا نام ’گریٹ وال’ ہے۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ گریٹ وال کی لمبائی 50 کروڑ نوری سال اور چوڑائی تقریباً 30 کروڑ نوری سال ہے۔سائنس دان کائنات میں فاصلے کی پیمائش کے لیے نوری سال کا پیمانہ استعمال کرتے ہیں۔ ایک نوری سال سے مراد روشنی کا وہ سفر ہے جو وہ ایک سال میں کرتی ہے۔ روشنی کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔
کہکشاؤں کے کلسٹر ’گریٹ وال‘ کی دریافت 1989ء میں ہوئی تھی۔اس دریافت کے 14 سال بعد کائنات میں موجود اس سے بھی بڑے کلسٹر کا انکشاف ہوا جسے ’سلون گریٹ وال‘ کانام دیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کلسٹر یا جھنڈ ہماری کہکشاں سے تقریباً ایک ارب نوری سال کی دوری پر واقع ہے، اور اس کی لمبائی کا اندازہ لگ بھگ ایک ارب 30 کروڑ نوری سال ہے۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ کہکشاؤں کے کلسٹر اگرچہ ایک دوسرے سے طویل فاصلوں پر ہیں لیکن ایک قوت انہیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے ہوئے ہے۔ ماہرین اس قوت کو کاسمک ویب یا کائناتی جال کا نام دیتے ہیں۔
کائنات کی سب سے چھوٹی اکائی ایٹم ہے۔ مگر ایٹم بھی نظام شمسی کی طرح ایک مرکز رکھتا ہے جسے نیوکلیس کہتے ہیں، نیوکلیس میں پروٹان اور نیوٹران ہوتے ہیں اوراس مرکز کے گرد الیکٹران گھومتے ہیں۔ جیسے سورج اور اس کے سیارے۔۔سب سے چھوٹا اور سادہ ایٹم ہائیڈروجن کا ہے جس کے نیوکلیس میں صرف ایک پروٹان ہوتا ہے اور اس کے گرد صرف ایک الیکٹران گردش کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائیڈروجن کے اٹیم سے خصوصی عمل کے ذریعے خارج ہونے والی توانائی ہی کہکشاؤں اور شمسی نظاموں کی تحلیق کا سبب ہے۔ گویا کہ کائنات کی سب سے چھوٹی اکائی کائنات کی سب سے بڑی اکائیوں کو جنم دیتی ہے۔
خلا میں نئی طاقت ور دوربینوں کی تنصیب اور خلائی تحقیقاتی مراکز میں جدید آلات کے بعد حاصل ہونے والے اعداد وشمار سے یہ ظاہر ہوا ہے اور کائنات کی وسعتوں میں کہکشاؤں کے کلسٹر یا سپر کلسٹر ایک معمولی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کائنات کی وسیع و عریض وسعتوں میں ان سے بھی کہیں بڑے خلائی اجسام موجود ہیں۔
شاید اسی لیے دانا کہتے ہیں کہ ہر نئی دریافت کے بعد یہ احساس مزید گہرا ہوجاتا ہے کہ ہمارا علم بہت محدود ہےاور ہماری حیثیت شاید کچھ بھی نہیں۔