ریمن ٹیلز
آنے والے صدارتی انتخابات میں آبادی سے متعلق مرکزی سوال یہ نہیں ہوگا کہ لاطینی کتنے بااثر بن چکے ہیں، بلکہ یہ کہ 2016 کے انتخابات میں اور اُس کے بعد وہ کتنے اثر کے مالک ہوں گے۔ ہسپانوی آبادی اب ملک کا سب سے بڑا اقلیتی گروپ ہے، جو مجموعی امریکی آبادی میں 17 فی صد سے زائد شمار رکھتے ہیں۔
کیا وہ سنہ 2012کے صدارتی انتخابات سے زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالیں گے؟ کیا وہ ڈیموکریٹک امیدوار کے حق میں بڑھ چڑھ کر ووٹ دیں گے؟ پچھلے الیکشن میں اُنھوں نے 71 فی صد سے 27 فی صد تک ایسا ہی کیا تھا؛ یا پھر بالترتیب سنہ 2004کی طرح، ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن کو 53 اور 44 فی صد ووٹ دیا تھا، جو کہ ریپبلین کے 12 امیدواروں میں سے کسی کو بھی جتانے کے لیے کافی ہوسکتا ہے؟
سنہ 2012میں ریپبلیکنز کو دہونے والی مات کے بعد سے، سیاسی مبصرین کے خیال میں سنہ 2016 کا ووٹ ری پبلیکنز کے لیے اہم امتحانی مرحلہ ہوگا، جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ تارکین وطن اور دیگر برادریوں کے ساتھ اتنے رابطے میں نہیں ہیں۔
ہر ایک ووٹ کی اہمیت
حالانکہ امریکہ کے لاطینی حضرات ماضی میں ہمیشہ ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدواروں کو ووٹ دیتے آئے ہیں، جس شرح سے وہ ڈیموکریٹک امیدوار کو ووٹ ڈالیں گے، وہی خاص اہمیت کا حامل ہوگا۔
’سینٹر فور امریکین پروگریس ایشکن فنڈ‘ کی جانب سے سنہ 2016کے انتخابات کے بارے میں تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ فلوریڈا جیسی اثرانداز ہونے والی ریاست میں لاطینی فیصلہ کُن حد تک ڈیموکریٹ نواز نہیں رہے؛ اور وہ اپنے 29 الیکٹورل ووٹ ری پبلیکن امیدوار کے حوالے کر سکتے ہیں، جیسا کہ 2004کے دوبارہ انتخابی دور کے دوران اُنھوں نے صدر جارج ڈبلیو بش کو وٹ دیا تھا۔
ڈینئیل الشیولر ’میک دی روڈ ایکشن فنڈ‘ کے انتظامی سربراہ ہیں۔ معاشی اور نسلی انصاف کے شعبوں میں وہ لاطینی آبادی اور دیگر تارکین وطن برادریوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اُن کی پیش گوئی یہ ہے کہ 2016 میں سنہ 2012 اور 2004 جیسے ہی معاملات ہوں گے، جس کا سبب اُن کے نزدیک، ری پبلیکن پارٹی کے امیدواروں کی طرف سے کی جانے والی لب کشائی ہے۔
الشیولر کے بقول، ’جب کہ 2012 میں سابق صدارتی امیدوار، مِٹ رومنی کی جانب سے ’ملک بدری‘ کا نعرہ تھا، جس کے نتیجے میں لاطینی ووٹروں نے تباہ کُن رد عمل ظاہر کیا؛ لیکن اب کے، ری پبلیکن امیدواروں کی جانب سے جس نوعیت کے بیانات سامنے آرہے ہیں، وہ رومنی کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں‘۔
وہ کہتے ہیں کہ، ’نام نہاد مجموعی قومی دھارے سے تعلق رکھنے والے ری پبلیکن امیدوار یہی زبان دہراتے رہے ہیں، یہاں تک کہ یہ گمان کرنا مشکل نہیں کہ لاطینی ووٹ اِنہی ری پبلیکن امیدواروں کو پڑے گا یا صورت حال کچھ اور ہوگی‘۔
ری پبلیکن کو ووٹ
لاطینیوں سمجھتے ہیں کہ ملک بھر کے لیے ایک مربوط امی گریشن پالیسی ہونی چاہیئے، اور یہی اُن کا 2016کے صدارتی انتخابی مہم سے اہم سوال ہو سکتا ہے۔ لیکن، معیشت، تعلیم اور دہشت گردی بھی اہم معاملات ہیں۔
ہرمینیو مین ڈوزا ایک خودساختہ ری پبلیکن ہیں، جو نیو جرسی کے ایک چھوٹے کاروباری شخص ہیں۔ بقول اُن کے، ’معاملہ روزگار کا ہی ہے‘۔
مین ڈوزا کا تعلق ڈومنیکن ریپبلک سے تھا۔ وہ 17 برس کی عمر میں 1992 میں بہتر روزگار کی تلاش میں امریکہ آئے۔ وہ عمارت سازی کے پیشے سے روزگار کماتے رہے ہیں۔
اُنھوں نے سنہ 2008 میں صدر براک اوباما کو ووٹ دیا تھا، جب وہ پہلی بار امریکہ کے شہری بنے۔ لیکن، اب وہ ری پبلیکن پارٹی کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ کاروبار کو فروغ دینے میں زیادہ مدد کرتے ہیں۔
دونوں جماعتوں کی پالیسیوں کا موازنہ کرتے ہوئے ، وہ کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹس فلاحی اور ہائوسنگ کے معاملے میں بہتر ہیں۔
ٹرمپ کی حمایت
کرسچین مارٹینز کی عمر 24 برس ہے۔ وہ پہلی بار ووٹر بنے ہیں۔ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ لیکن، مین ڈوزا کے برعکس، جو صدر کے طور پر نیو جرسی کے گورنر کرس کرسٹی کے حامی ہیں، وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرتے ہیں۔
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ٹرمپ ’مغرور‘ ضرور ہیں اور نبض شناس نہیں لگتے؛ لیکن، وہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے ذاتی عملے میں ہر نسل اور علاقے کے افراد شامل ہیں۔ ٹرمپ کی امی گریشن پالیسی میں امریکہ میکسیکو سرحد پر 3000 کلومیٹر طویل باڑ لگانا اور ملک سے اندازاًٍ یک کروڑ 10 لاکھ غیرقانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنا شامل ہے۔
مارٹنیز کے بقول، ’اُن کے ساتھ ہر قسم کے لوگ کام کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ بہت سارے پیسے کماتے ہیں، لیکن وہ لوگوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں‘۔
الشولر کہتے ہیں کہ مارٹنیز جیسے ٹرمپ کے حامی لوگ کم ہی ملیں گے۔