شام میں خانہ جنگی سے متاثر عوام اور مہاجرین کی امداد کے لیے امریکہ اور دنیا کے دیگر امیر ملکوں نے مزید کئی ارب ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جمعرات کو لندن میں ہونے والی بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس میں شریک عالمی رہنماؤں نے شام کے بحران سے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے عالمی امدادی اداروں کو مزید رقم فراہم کرنے کے وعدے کیے۔
برطانیہ، ناروے اور جرمنی کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والی کانفرنس کے دوران برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون اور ان کی نارویجئن ہم منصب ارنا سالبرگ نے 2020ء تک شام کے بحران سے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے بالترتیب 76ء1 اور 17ء1 ارب ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کیا۔
جرمن چانسلر آنگلا مرخیل نے اعلان کیا کہ ان کا ملک شامی مہاجرین کی امداد کے لیے سنہ 2018 تک 57ء2 ارب ڈالر فراہم کرے گا۔
کانفرنس سے خطاب میں امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے اعلان کیا کہ اوباما انتظامیہ نے رواں مالی سال کے دوران شامی مہاجرین کی امداد کے لیے 89 کروڑ ڈالرمختص کیے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی کام کرنے والے امدادی اداروں نے رواں سال شامی بحران کے متاثرین کی امداد کے لیے عالمی برادری سے 73ء7 ارب ڈالر فراہم کرنے کی اپیل کر رکھی ہے۔
امدادی اداروں کی جانب سے طلب کی جانے والی رقم کے علاوہ شامی مہاجرین کی میزبانی کرنے والے خطے کے ملکوں نے بھی امیر ممالک سے 2ء1 ارب ڈالر کا تقاضا کیا ہے۔
جمعرات کو ڈونرز کانفرنس کے دوران یورپی یونین، جاپان اور دیگر کئی ریاستوں نے بھی شام میں خانہ جنگی سے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے مزید رقم فراہم کرنے کے وعدے کیے۔
شام میں خانہ جنگی گزشتہ پانچ برسوں سے جاری ہے جس کے دوران اب تک لگ بھگ ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
جنگ کےباعث تقریباً 60 لاکھ شامی باشندے اندرونِ ملک بے گھری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ 40 لاکھ سے زائد شامی خطے کے دیگر ملکوں میں پناہ گزین ہیں۔
ترکی کے وزیرِ اعظم احمد اولو نے کانفرنس کے شرکا کو بتایا کہ روس کے جنگی طیاروں کی شام کے شہر حلب اور اس کے نواحی علاقوں پر بمباری میں اچانک اضافے کے نتیجے میں مزید کئی ہزار شامی پناہ گزین ترکی کا رخ کر رہے ہیں۔
ترک وزیرِاعظم کے مطابق شمالی حلب کے مہاجر کیمپوں میں مقیم 60 سے 70 ہزار شامی مہاجرین نے روسی بمباری سے بچنے کے لیے ترکی کی طرف سفر شروع کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بمباری کےباعث حلب کے مزید تین لاکھ سے زائد شہری ترکی آنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
انہوں نے مندوبین کو بتایا کہ گو وہ لندن میں ہونے والی کانفرنس میں شریک ہیں لیکن ان کا دل اپنے ملک میں اٹکا ہوا ہے اور وہ اسی فکر میں ہیں کہ شام سے نئے آنے والے ان مہاجرین کو کہاں اور کیسے آباد کیا جائے۔
ترکی شامی مہاجرین کا پناہ دینے والا سب سے بڑا ملک ہے جہاں اس وقت شام کی خانہ جنگی کے باعث بے گھر ہونے والے 25 لاکھ سے زائد مہاجرین کیمپوں اور عارضی بستیوں میں مقیم ہیں۔
ترکی کےعلاوہ کئی لاکھ شامی باشندے خطے کے دیگر ملکوں میں بھی پناہ گزین ہیں جن میں اردن اور لبنان سرِ فہرست ہیں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اردن کے حکمران شاہ عبداللہ نے کہا کہ ان کی قوم اپنی استطاعت سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کر رہی ہے اور اب وہ مزید مہاجرین قبول نہیں کرسکتے۔
کانفرنس کے کئی شرکا کا کہنا تھا کہ پڑوسی ملکوں میں مقیم شامی پناہ گزینوں سے کہیں زیادہ شام میں پھنسے ان افراد کو امداد کی ضرورت ہے جو لڑائی کے باعث کہیں آجا نہیں سکتے اور محاصروں اور بمباری کے باعث بنیادی اشیا اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔