رسائی کے لنکس

حریری قتل کی تحقیقات اور اس گھرانے کا سیاسی ورثہ


حریری قتل کی تحقیقات اور اس گھرانے کا سیاسی ورثہ
حریری قتل کی تحقیقات اور اس گھرانے کا سیاسی ورثہ

اقوام متحدہ کی حمایت سے قائم ہونے والے خصوصی ٹربیونل نے چھ سال کے بعد، سابق وزیرِ اعظم رفیق حریری کے قتل کے کیس میں گرفتاری کے چھ وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔ ممکن ہے کہ مزید لوگوں پر فرد جرم عائد کی جائے۔ تا ہم بعض لوگ سوچتے ہیں کہ کیا کبھی ایسا ہو گا کہ کسی بھی فرد کو انصاف کے کٹہرے تک لایا جائے ۔

بیروت میں ایک اور گرم دن کا اختتام ہو رہا ہے اور سورج بحر روم کے گہرے گلابی افق میں ڈوبتا نظر آتا ہے ۔ شام ہوتے گرمی کچھ کم ہوئی ہے تو بیروت کے باسی ساحلِ سمندر کے اسی ٹکڑے پر نکل آئے ہیں جہاں 2005 میں رفیق حریری اور دوسرے 22 افراد ایک ٹرک میں نصب بہت بڑے بم سے ہلاک ہوئے تھے ۔

یہاں سے کچھ ہی دور شہر کے مرکز میں ان کی کمپنی، Solidere واقع ہے جو انھوں نے 15 سالہ خانہ جنگی کے ملبے پر تعمیر کی تھی۔ لیکن جنوری میں ان کے بیٹے سعد حریری کی حکومت کے خاتمے اور اس کی جگہ ایرانی اور شامی حکومت کی حمایت یافتہ حزب اللہ کی حکومت کے قیام سے ، بعض تجزیہ کاروں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا حریری گھرانے کے سیاسی ورثے پر زوال آ رہا ہے۔

لبنان کی امریکن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر عماد سلامی کہتے ہیں کہ حریری کے بعض حامیوں کو اس بات پر مایوسی ہوئی تھی کہ سعد حریری بظاہر حزب اللہ کے ساتھ سودے بازی کے لیے تیار تھے ۔

یہ سودا شامیوں اور سعودیوں کی وساطت سے طے پایا تھا کہ اقوام ِ متحدہ کی حمایت سے قائم ہونے والا ٹربیونل تفتیش ختم کردے اور اس کے عوض حزب اللہ اپنے ہتھیار لبنان کی فوج کے حوالے کردے۔

پروفیسر سلامی کہتے ہیں کہ مسٹر حریری نے ایک حالیہ ٹیلیویژن انٹرویو میں اپنے حامیوں کی مایوسی کو تسلیم کیا ہے ۔’’انھوں نے تسلیم کیا کہ انھوں نے جو موقف اختیار کیا اس کی وجہ سے وہ بہت سے لوگوں کی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور بہت سے لوگوں نے محسوس کیا کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔ لیکن ان کے الفاظ میں، ان کی نظر ملک کے مفاد پر تھی، وہ قومی اتفاقِ رائے چاہتے تھے اور انہیں ملک کا مستقبل عزیز تھا۔‘‘

سلامی کہتے ہیں کہ مسٹر حریری ملک کے وسیع تر مفاد کے لیے انصاف کو قربان کرنے کو تیار تھے، لیکن جب حزب اللہ کی مبینہ مخالفت کی وجہ سے یہ سودا تکمیل کو نہ پہنچ سکا، تو انھوں نے ٹربیونل کے ذریعے انصاف حاصل کرنے کے ابتدائی موقف پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا۔

گذشتہ دو مہینوں سے مسٹر حریری اپنے پیرس والے گھر میں رہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لبنان میں وہ اپنی سلامتی کے لیے خطرات محسوس کرتےہیں۔ بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہلال خاشان کہتے ہیں کہ ان حالات میں ان کی غیر موجودگی سے ان کے کمزور ہونے کا تاثر مضبوط ہوتا ہے۔’’وزیرِ اعظم کا عہدہ کھو دینے کے بعد، انھوں نے لبنان چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ لبنان کی سنّی کمیونٹی کو ان کی یہ بات پسند نہیں آئی۔ ذرا سوچیئے، اگر صدر اوباما کو قتل کی دھمکی ملے، تو کیا وہ امریکہ چھوڑ دیں گے؟ ‘‘

لیکن ساحلِ سمندر پر، اپنے آ پ کو سنّی کہنے والے بہت سے لوگوں نے ماہرین کی رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ 51 سالہ صالح داباغ نے کہا کہ مسٹر حریری نے انصاف کے لیئے اپنی ذاتی خواہش کو ملکی مفاد کی خاطر پس پشت ڈال دیا ہے۔’’وہ دل کے بہت اچھے ہیں۔ اور وہ صحیح معنوں میں لبنانی ہیں، وہ شامی نہیں، ایرانی نہیں، وہ لبنانی ہیں۔‘‘

42 سالہ خالد ایک ڈرائیور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسٹر حریری کی زندگی خطرے میں تھی۔ ان کے پاس ملک چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

ان کے بقول سنّی سیاستدانوں میں، مسٹر حریری نے اپنے حامیوں کی مدد کی سب سے زیادہ کوشش کی ہے۔ دوسرا کوئی سیاستداں ان کی جگہ نہیں لے سکتا۔

Tareek el-Jdeideh کے محلے میں اکثریت سنیوں کی ہے۔ یہاں قہوہ خانوں میں لوگ حقہ پیتےہیں اور تاش کھیلتے ہیں۔ 85 سالہ عبدالرحمان خلیل کہتےہیں’’سعد حریری کبھی بھی وزیرِ اعظم بننا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے یہ عہدہ اس لیے قبول کیا کیوں کہ ان کے والد کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ وہ لبنان واپس ضرور آئیں گے، وزیرِ اعظم کے عہدے پر نہیں تو اپنی پارٹی دی فیوچر موومنٹ اور سنیوں کے قائدکی حیثیت سے۔

تجزیہ کار کہتےہیں کہ مسٹر حریری کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے ہمسایہ ملک شام میں حکومت میں تبدیلی ضروری ہوگی۔ کئی عشروں تک ، شام لبنان پر حکومت کرتا رہا لیکن رفیق حریری کے قتل کے بعد اس نے لبنان سے اپنی فوجیں نکال لیں۔ لیکن شام ایک بار پھر نئی حکومت کے ذریعے جس پر اس کے قریبی اتحادی، حزب اللہ کا کنٹرول ہے، لبنان پر اثر انداز ہو رہا ہے ۔

سعد حریری
سعد حریری

پروفیسر سلامی کہتے ہیں کہ اگر شام میں صدر بشر الاسد کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے، تو اس سے لبنان کے سنیوں اور سعد حریری کی قسمت جاگ جائے گی۔’’اگر شام میں علویہ حکومت ختم ہو جاتی ہے اور سنیوں کو زیادہ اختیارات مل جاتے ہیں، تو اس سے یقیناً لبنان میں سنی مضبوط ہو جائیں گے اور توازن شیعوں اور خاص طور سے حزب اللہ کے خلاف ہو جائے گا۔ اس طرح حریری کو بھی مدد ملے گی۔‘‘

پروفیسر خاشان اس خیال سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک مسٹر اسد اقتدار سے چمٹے رہتےہیں، مسٹر حریری کے سیاسی امکانات تاریک رہیں گے۔’’اگر شام میں حالات کوئی دوسرا رخ اختیار کر لیتےہیں، تو حریری کو اس سے بہت فائدہ ہو گا۔ اگر اسد اقتدار پر قبضہ برقرار رکھتے ہیں، تو پھر آپ حریری کو خدا حافظ کہہ سکتے ہیں۔‘‘

اس دوران، مسٹر حریری نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ وہ لبنانی سیاست مِیں اپنے رول سے دستبردار ہو رہےہیں۔ وہ اپنی فیوچر تحریک کے ذریعے سیاست میں سر گرم رہیں گے اور جلد ہی ملک واپس آ جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG