لبنان کے دوسرے بڑے شہر طرابلس کے دو محلوں کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں کے اکّا دکّا واقعات سے لبنانیوں کے لیے اس ہولناک خانہ جنگی کی یاد تازہ ہوئی ہے جس نے لبنان کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کر دیا تھا۔
حال ہی میں طرابلس میں رات کے وقت مسلح جھڑپوں کے دو واقعات ہوئے جن میں 25 افراد ہلاک اور 60 سے زیادہ زخمی ہوئے ۔ یہ ہنگامے بیروت تک پھیل گئے جہاں ایک واقعے میں دو افراد ہلاک ہو گئے ۔
بیروت میں جھڑپیں ایک سنی عالم کی ہلاکت سے شروع ہوئیں ۔ اطلاعات کے مطابق یہ عالم، شام کے باغیوں کی حمایت میں سرگرم تھے جو صدر بشار الاسد کی حکومت سے جنگ کر رہے ہیں۔
لبنان کے بہت سے سنّی مسلمانوں کے ہمدردیاں ، شامی حکومت کے خلاف پندرہ مہینے پرانی تحریک کے ساتھ ہیں ۔ اس تحریک کی قیادت شام کی سنی اکثریت کے ہاتھ میں ہے ۔ دوسری طرف، لبنانی شیعہ اور اس کے علویہ فرقے کے لوگ، شام کی حکومت کے حامی ہیں۔
لبنان کے سنیوں کو شامی فوجیوں کے سرحد پار گھس آنے پر بھی غصہ ہے ۔ انھوں نے شامی فورسز پر الزام لگایا ہے کہ وہ ان لبنانیوں کو جن پر انہیں شامی باغیوں کی مدد کرنے کا شبہ ہوتا ہے، اغوا کرتے ہیں اور گولی مار دیتے ہیں۔ وہ ہر ہفتے طرابلس میں احتجاجی مظاہرے کرتے رہے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں لبنان کی حکومت اسد حکومت کی حمایت کر رہی ہے۔
الیکٹریشین حسین علی ایسے ہی ایک مظاہرے میں موجود تھے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ شیعوں، علویوں اور سنیوں کے درمیان مسائل ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ لیکن اب باہر کے کچھ لوگ ہنگامہ کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہاں سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر، ایک دوسرا محلہ ہے جس میں طرابلس کی چھوٹی سی علویہ برادری رہتی ہے ۔ اس برادری کے لیڈر علی فاؤدا کہتے ہیں کہ کچھ سنّی شام کے جھگڑے کو شمالی لبنان کو غیر مستحکم بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے، لبنان میں کچھ لوگوں نے اسے اپنی لڑائی بنا لیا ہے ۔ آخر یہ لوگ شام کے معاملات میں مداخلت کیوں کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق، شامی باغیوں کو لبنان اور دوسرے عرب ملکوں میں اپنے حامیوں سے اسلحہ مل رہا ہے ۔ دوسری طرف ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ شامی حکومت کو اپنے اتحادیوں، ایران اور روس سے، اور لبنانی عسکریت پسند دھڑے، حزب اللہ سے ہتھیار مل رہے ہیں ۔
لبنان میں ہیومن رائٹس واچ کے ندیم آورے کہتے ہیں کہ لبنان کی حکومت اسلحہ کی ترسیل کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے اور سرکاری طور پر غیر جانب دار ہے۔’’لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ محض دکھا وا ہے کیوں کہ لبنان کی مملکت یا حکومت کوئی واحد قوت نہیں۔ اس بیان کے پیچھے لبنان کے بڑے بڑے سیاسی گروپ ہیں جو ہر گز غیر جانبدار نہیں ہیں۔‘‘
شمالی لبنان اقتصادی طور پر پسماندہ ہے اور یہاں ہمیشہ سے اسمگلنگ ہوتی آئی ہے۔ آورے کہتے ہیں کہ یہاں رہنے والے سنی محسوس کرتے ہیں کہ انہیں سماجی اور اقتصادی طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
’’یہ تمام عوامل اکٹھے ہو گئے ہیں اور یہ کمیونٹی جب شام کے ہولناک واقعات کی تفصیل سنتی ہے، اور یہ سنتی ہے کہ لبنان کی حکومت کے کچھ عناصر شامی حکومت کی مدد کر رہے ہیں، تو اس کمیونٹی میں انتہا پسندی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
تا ہم، بیروت کی امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر حلال خاشیم کے خیال میں شام کے حالات کے نتیجے میں، لبنان میں کوئی بڑا ہنگامہ نہیں ہوگا۔ وہ کہتے ہیں’’مجھے امید نہیں کہ سیکورٹی کی صورتِ حال خطرناک حد تک خراب ہوگی کیوں لبنان کے سیاسی نظام میں شامل مختلف دھڑے جانتے ہیں کہ سیکورٹی اور استحکام ختم ہونے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ لبنان کے لیڈروں کو خانہ جنگی کا زمانہ یاد ہے اور جیسے ہی کوئی واقعہ ہوتا ہے وہ فوراً ضروری کارروائی کرتے ہیں۔ طرابلس میں حالیہ جھڑپوں کے بعد، حکومت نے وہاں فوجی کمک بھیج دی ہے ۔ تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ روس اور چین نے مغربی ملکوں کی اُن کوششوں کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے جو وہ مسٹر اسد کو ہٹانے کے لیے کر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ شام کے جھگڑے کی وجہ سے نہ صرف علاقائی کشیدگی میں بلکہ عالمی کشیدگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔