پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے امریکہ میں مقیم پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے لیے حکام کو مزید ایک ماہ کا وقت دیا ہے۔ تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض قانونی مشکلات کی وجہ سے انہیں واپس لانا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
ایک روز قبل ہی حسین حقانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بین الاقوامی قانون میں سپریم کورٹ کے احکامات کی کوئی وقعت نہیں ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضٰی کا کہنا ہے حسین حقانی کو واپس لانا ایک مشکل کام ہے اور ان کے بقول 30 دن یا اس بھی زیادہ عرصے میں حسین حقانی کو ملک واپس لانا مشکل ہوگا۔
جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اس معاملے میں حسین حقانی کو بین الاقوامی قوانین کا فائدہ مل سکتا ہے۔
واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی عدالت عظمیٰ میں جاری کارروائی کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ان کے لیے اس کی کوئی وقعت نہیں ہوگی اور ان کے بقول عدالتِ عظمیٰ کے احکامات بھی بین الاقوامی قانون کے تابع ہوتے ہیں۔
تاہم پاکستان کے سابق وزیرِ قانون اور ماہر قانون دان ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ عدالت کی کارروائی کو یک طرفہ اس وقت قرار دیا جا سکتا ہے جب کسی بھی فریق کو بغیر سنے اس کے خلاف فیصلہ دے دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تو سپریم کورٹ نے حسین حقانی کو عدالت طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عدالت میں حاضر ہوکر اپنا مؤقف پیش کریں۔
جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایس ایم ظفر نے کہا کہ عدالتِ عظمیٰ کسی بھی معاملے کی سماعت کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں فیصلہ متعلقہ فریقوں کا مؤقف سننے کے بعد ہی کر سکتی ہے۔
ایس ایم ظفر کا کہنا تھا کہ عدالت کے احکامات کی تعمیل اسی طرح ضروری ہے جیسا کہ عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد کرانا ضروری ہے۔
"اگر عدالت نے ریڈ ورانٹ جاری کرنے کا کہہ دیا تو اس کی اسی طرح تعمیل ہوگی ہے جس طرح عدالت کے فیصلوں کی ہوتی ہے۔ شاید انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ چونکہ وہ امریکہ میں ہیں اس لیے شاید سپریم کورٹ کے آرڈر کی ان کے لیے وقعت نہیں۔ شاید ان کی ایسی سوچ ہو کہ وہ ریڈ وارنٹ کے جاری ہونے کا دفاع کر سکتے ہیں۔"
تاہم ایس ایم ظفر کے بقول حسین حقانی کے کہ ملک سے باہر رہ کر بیان دینے سے عدالت کی کارروائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
"جہاں یہ کہنا کہ عدالت کے پاس اس معاملے کا اختیارِ سماعت نہیں ہے، ابھی اختیارِ سماعت کا مسئلہ تو عدالت کے سامنے آیا ہی نہیں ہے۔ وہ عدالت کے سامنے پیش ہو کر کہہ سکتے ہیں کہ عدالت کے پاس اختیارِ سماعت نہیں ہے اور بحث کر سکتے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "باہر بیٹھ کر بحث کرنے سے عدالت کے فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وہ اپنی کارروائی جاری رکھیں گے اور ملکی اور بین الاقوامی قانون کے مطابق جو بھی قانون (ضروری) ہو سکتا ہے اس کے تحت یہ (معاملہ) آگے بڑھتا رہے گا۔"
بدھ کو ’وائس آف امریکہ‘ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں حسین حقانی نے کہا تھا کہ اُنھیں "اب تک کسی قسم کے کوئی عدالتی احکامات موصول نہیں ہوئے۔"
لیکن انہوں نے عدالت کے تازہ احکامات پر اپنے ردِ عمل میں کہا کہ یہ ان کے لیے اور باقی دنیا کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایس ایم ظفر کا مزید کہنا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کا میمو گیٹ سے متعلق تازہ بیان حسین حقانی کے لیے تقویت کا باعث ہو گا۔
"یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ نواز شریف کا یہ بیان کہ میں نے اس معاملے پر سپریم کورٹ میں پیٹشن داخل کرنے کی غلطی کی تھی اس سے یقینی طور حسین حقانی کی ہمت بندھی ہو گی اور اس سے کوئی تبدیلی آنے کی بھی گنجائش ہو سکتی ہے۔"
واضح رہے کہ میموگیٹ اسکینڈل 2011ء میں اس وقت سامنے آیا تھا جب ایک پاکستانی نژاد امریکی کاروباری شخصیت منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھیں اس وقت واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ایک خفیہ میمو امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن کو پہنچانے کا کہا تھا۔
حسین حقانی پہلے ہی متنازع خط کی تیاری اور اس کی ترسیل سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں جس میں مبینہ طور پر امریکی حکومت سے پاکستان کی منتخب حکومت کے خلاف فوج کی ممکنہ بغاوت روکنے کے لیے مدد مانگی گئی تھی۔