لیاری۔۔۔کراچی کی ایک ایسی بستی جو پچھلے کئی دنوں سے مسلسل خبروں میں ہے۔ خبریں بھی ایسی کہ ان کی بدولت جو لوگ لیاری سے واقف نہیں تھے وہ بھی اب اسے اچھی طرح جاننے پہنچاننے لگے ہیں۔ ان چند دنوں میں خبروں کی بدولت لیاری کی جو شکل ابھرکر سامنے آئی ہے اس کے مطابق یہ شہر کی قدیم ترین مگر پسماندہ بستیوں میں سے ہے۔ ۔۔غربت، بے روزگاری، مایوسی، بھتہ خوری، گینگ وار، ناجائز ہتھیار، جرائم اور سیاسی رہنماوٴں کا سیاسی اکھاڑاجیسی اصطلاحات اس کے نام سے چپٹ سی گئی ہیں۔
لیکن اس بستی کی بہت سی خوبیاں ایسی بھی ہیں جو اسے سارے پاکستان میں دوسروں علاقوں سے ممتاز بناتی ہیں۔
بستی کی تاریخ سے ان جان لوگوں کویہ سن کر شاید حیرت ہو کہ یہ علاقہ ”پاکستان کا برازیل“ بھی کہلاتا ہے ۔ملک بھر میں سب سے زیادہ فٹبال کے دیوانے اسی بستی کے رہائشی ہیں۔ اس کی اصل وجہ کیا ہے یہ تو خاصہ تحقیق طلب کام ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس گنجان بستی کا تقریباًہر نوجوان فٹ بال کا دیوانہ ہے ۔ ۔۔اور نوجوان ہی کیوں۔۔ادھیڑ عمر اور بوڑھے افراد کی ایک بڑی تعداد آج بھی فٹبال کی رسیا ہے۔
جب بھی فٹ بال کا عالمی کپ ہوتا ہے ، اسے دیکھنے کا سب سے زیادہ اہتمام اسی بستی میں ہوتا ہے ۔ باقی ملک کے لوگ بھلے ہی کرکٹ کے دیوانے ہوں اورورلڈ کپ فٹ بال ان کے لئے غیر دلچسپ ہو مگر لیاری میں یہ جنون کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ علاقے کی گلیاں پسندیدہ فٹ بال ٹیموں کے جھنڈوں سے سج جاتی ہیں۔ نوجوان اپنے اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کے نام اور مخصوص کلر والے کپڑے پہنے پھرتے نظرآتے ہیں۔
جیسے ہی میچ شروع ہوتا ہے علاقہ اسٹیڈیم میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ٹی وی کی بڑی بڑی اسکرینیں لگ جاتی ہیں اور سیکڑوں کا ہجوم امڈ آتا ہے اور یہ کیفیت کسی ایک جگہ نہیں ہوتی پورے لیاری میں یہ ہجوم ٹولیوں کی شکل میں بدل جاتا ہے۔ ادھر گول ہوا نہیں کہ لوگ خوشی کے مارے دیوانے ہوجاتے ہیں اور اپنی جگہ سے اٹھ کر دیوانہ وار ناچنے لگتے ہیں۔ پھر پسندیدہ ٹیم کے جتنے پر جو جشن ہوتا ہے اس کے تو کہنے ہی کیا۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ علاقہ صرف فٹ بال میچ دیکھنے تک ہی محدود ہو بلکہ اس علاقے اس بستی نے بہت سے نامور فٹ بال کھلاڑی بھی پاکستان کو دیئے ہیں مثلاً عمر بلوچ،تراب علی،علی نواز ،عبدالعزیز اور فٹ بال کوچ احمد جان ۔۔۔یہ تمام بڑے کھلاڑی لیاری ہی کی پہچان ۔اور۔۔لیاری ہی کا ہنستا مسکراتا چہرہ ہیں۔
فٹ بال کے بعد باکسنگ بھی لیاری کا ایک ہردل عزیز کھیل ہے ۔ جتنے باکسنگ کلب اس بستی میں ہیں شاہد ہی آپ کو کراچی یا پاکستان کے باقی شہروں میں ملیں۔ سن انیس سو اٹھاسی کے سیول اولمپکس میں پاکستان کے لئے واحد کانسی کا تمغہ جتنے والے باکسر حسین شاہ اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی وطن واپسی پر شاندار استقبال کے مناظر ، جشن اور حکومت کی جانب سے پذیرائی کے قصے پاکستانی میڈیا کے پاس قوم کی امانت ہیں۔
لیاری عوامی بستی ہے۔۔اس میں کوئی شک نہیں ۔۔بلکہ اس کا ثبوت وہ کھیل بھی ہیں جو یہاں بسنے والوں کی ثقافت اور کلچر کے امین ہیں۔مثلاً سائیکلنگ اور گدھا گاڑی ریس۔ ان مقابلوں کے شوقین افراد کی تعداد بھی یہاں کچھ کم نہیں۔ اکثر مزار قائد سے ٹاور یا لیاری سے کلفٹن تک ہونے والی گدھا گاڑی ریس کے شرکا ء کی اکثریت کا تعلق لیاری سے ہی ہوتا ہے۔
ثقافت اور کلچر کی بات نکلی ہے تو یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یہاں کے رہائشی کسی ایک زبان یا علاقے سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ یہاں ابتدا ہی سے ” ملٹی کلچر“پروان چڑھتا رہا ہے۔ یہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے بھی پہلے کی بستی ہے ۔ اس وقت یہاں کی آبادی پندرہ لاکھ سے اوپر ہے۔ اگرچہ بیشتر بلوچ قوم سے تعلق رکھتے ہیں مگر کچھی، میمن، گجراتی، ہنگوروی، ہندکو وغیرہ بھی یہاں خاصی تعداد میں آباد ہیں۔
یہاں بلوچی ثقافت کے رنگ جابجا بکھرے نظر آتے ہیں۔ بلوچ رقص ، مشہور بلوچی ساز سیروز کی لے پر لیوار رقص یہاں کا خاص رنگ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد آپ کو اس بستی میں مل جائیں گے۔ اسی میل جول اور ثقافتی ورثے کے سبب لیاری کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔
بستی کی تاریخ سے ان جان لوگوں کویہ سن کر شاید حیرت ہو کہ یہ علاقہ ”پاکستان کا برازیل“ بھی کہلاتا ہے ۔ملک بھر میں سب سے زیادہ فٹبال کے دیوانے اسی بستی کے رہائشی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1