لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے بھی اس سال کے آخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے ہیں۔ انتخابات 24 دسمبر کو منعقد ہوں گے۔
انچاس سالہ سیف الاسلام قذافی پہلی بار اس طرح منظر عام پر آئے ہیں۔
عرب میڈیا نے ایک وڈیو نشر کی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سیف الاسلام قذافی روایتی بھورے رنگ کا جبّہ پہنے ہوئے جنوبی شہر سبہا کے الیکشن کے دفتر میں نامزدگی کے کاغذات پر دستخط کر رہے ہیں۔
خطار ابو دیات یونیورسٹی آف پیرس میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ لیبیا کا عدالتی نظام سیف الاسلام قذافی کے امیدوار ہونے کو قبول کرتا ہے یا نہیں۔
ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے ترجمان نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ اتوار کو سامنے والا اعلان عدالت کے اس مطالبے پر اثر انداز نہیں ہوتا کہ قذافی کے بیٹے کو انسانیت کے خلاف جرائم اور بغاوت کے ساتھ تعلق کے الزامات میں عدالت کے روبرو پیش کیا جائے۔
لیبیا میں ہونے والے صدارتی انتخاب کی اس دوڑ میں مشرقی فوج کے کمانڈر خلیفہ حفتار، وزیر اعظم عبدالحمید الدبیبہ اور پارلیمان کے سپیکر عقيلة صالح عيسیٰ شامل ہیں۔ ان کے مقابلے میں قذافی سب سے زیادہ متنازعہ اور نمایاں امیدوار بن کر اچانک سامنے آئے ہیں۔
دس سال پہلے جب قذافی کے خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، اس کے بعد یہ شاذ ہی عوام کے سامنے آئے ہیں۔ بہرحال ان کا باقاعدہ صدارتی امیدوار کے طور پر کاغذات جمع کرانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، کیونکہ یہ لیبیا کے کئی علاقوں کے لیے ناقابل قبول ہیں۔
چوبیس دسمبر کو ہونے والے ان انتخابات کے ضابطوں اور شیڈول پر لیبیا کے بعض دھڑوں کو کافی اعتراضات ہیں۔ پچھلے ہفتے پیرس میں ایک کانفرنس ہوئی تھی جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ الیکشن میں رکاوٹ ڈالنے والوں اور ووٹ دینے سے روکنے والوں پر پابندیاں لگا دی جائیں گی۔ مگر اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا کہ کون اس انتخاب میں حصّہ لینے کا اہل ہے اور کون نہیں۔
مبصرین کے مطابق، لیبیا میں اب تک عوام کو معمر قذافی کا دور اقتدار یاد ہے اور ایسے حالات میں ان کے بیٹے کا صدارتی انتخاب لڑنے کا عزم بےحد عجیب دکھائی دے رہا ہے۔ ممکن ہے ان کے خیال میں اب بھی ان کے باپ کےحامی موجود ہیں، جو ان کے حق میں ووٹ دے سکتے ہوں۔
اکتوبر 2011 میں معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور مخالفین نے ان کو گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ اس کے بعد پہاڑی زنتان علاقے کے جنگجووں نے سیف الاسلام کو پناہ دی اور اب دس سال بعد یہ نمو دار ہوئے ہیں۔
اس سال انہوں نے اخبار نیو یارک ٹائمز کو ایک انٹرویو دیا تھا، مگر اس میں انہوں نے سیاسی عزائم کا اظہار نہیں کیا تھا۔
اس کے علاوہ 2015 میں طرابلس کی ایک عدالت میں ان کی غیر حاضری میں ایک مقدمہ چلا، جس میں ان جنگی جرائم پر سزائے موت سنائی گئی۔ یہ بین الاقوامی فوجی عدالت کو بھی مطلوب ہیں۔ ان حالات میں اگر یہ طرابلس آتے ہیں تو انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
(خبر کا مواد وائس آف امریکہ کے لیے ایڈورڈ ییرانین کی رپورٹ اور رائیٹرز سے لیا گیا ہے)