رسائی کے لنکس

لیبیا پر نو فلائی زون قائم،شہریوں پر حملے جاری


لیبیا پر نو فلائی زون قائم،شہریوں پر حملے جاری
لیبیا پر نو فلائی زون قائم،شہریوں پر حملے جاری

مغربی ملکوں کے فوجی عہدے دار کہتے ہیں کہ لیبیا پر نو فلائی زون کامیابی سے قائم کیا جا چکا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ نو فلائی زون کو قائم رکھنے کے لیئے کیا کرنا پڑتا ہے، اور اب اگلا قدم کیا ہوگا۔ وائس آف امریکہ کے نامہ نگارآندرے ڈی نیسنیرا نے اس رپورٹ میں انہیں سوالات کا جائزہ لیا ہے۔

یہ بین الاقوامی اتحاد اقوامِ متحدہ کی ایک قرار داد کے تحت کام کررہا ہے جس میں لیبیا کے لیڈر کرنل معمر قذافی کو اپنی فضائی طاقت ان لوگوں کے خلاف استعمال کرنے سے روکنے کے لیئے جو ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ایک نو فلائی زون قائم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ۔اس قرارداد میں رکن ممالک کوان سویلین باشندوں اور بستیوں کو بچانے کے لیئے تمام ضروری اقدامات کا اختیار بھی دیا گیا ہے جنہیں حملے کا خطرہ درپیش ہے ۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اتحاد نے لیبیا کی فضائی حدود میں کامیابی سے نو فلائی زون قائم کر دیا ہے۔ کرنل قذافی کی ایئر فورس اب زمین سے اٹھ نہیں سکتی، اور ان کا فضائی دفاعی نظام بڑی حد تک تباہ ہو چکا ہے ۔ لیکن وارڈ کیرول جوعراق اور بوسنیا کے نو فلائی زون میں ہوائی جہاز اڑا چکےہیں ، کہتے ہیں کہ نو فلائی زون قائم کرنا اسے باقی رکھنے کے مقابلے میں آسان ہوتا ہے۔’’فرض کیجیئے کہ آپ یہ کام چوبیس گھنٹے، ہفتوں کے ساتوں دن کر رہے ہیں۔ عام طور سے لیبیا والے رات کو وقت جہاز نہیں اڑاتے ۔ اس لیئے آپ شاید رات کو اپنی کارروائی کم کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ کو پھر بھی ارلی وارننگ ایر کرافٹ، دوسرے امدادی جہاز، اور ایسے جہاز رکھنے پڑیں گے جو اس صورت میں فوری طور پر استعمال کیئے جا سکیں جب قذافی کی فورسز اپنے جہاز اڑانا اوراندھیرا ہونے کے بعد باغی فورسز پر حملے شروع کر دیں۔‘‘

کیرول کہتے ہیں کہ نو فلائی زون کی نگرانی کرنے کے لیئے جیٹ فائٹرز کے علاوہ اور بہت سی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ آپ کو Harrier jets اور کوبرا ہیلی کاپٹر چاہئیں، اور ٹینکر ہوائی جہاز چاہئیں جو دوران پرواز ہوائی جہازوں کو ایندھن فراہم کر سکیں۔ یہ سب بہت مہنگا کام ہے۔ کیرول کہتے ہیں کہ ابتدائی مرحلے میں ہوائی حملوں پر اندازاً ایک ارب ڈالر خرچ آتا ہے اور پھر نو فلائی زون کو برقرار رکھنے پر ہر ہفتے دس کروڑ سے تیس کروڑ ڈالر تک خرچ ہوتے ہیں۔

لیکن اس تمام کوشش اور خرچ کے باوجود، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایسے آثار نظر نہیں آرہے کہ اتحادیوں کے ہوائی حملوں سے قذافی کو سویلین آبادی پر حملوں سے باز رکھا جا سکا ہے۔ ریٹائرڈ ایئر فورس جنرل مائیک ڈن نو فلائی زونز میں فضائی فوج کے عملے کی کمان کر چکے ہیں۔ وہ کہتےہیں’’اگر مشن یہ ہے کہ لیبیا کی سویلین آبادی کی حفاظت کی جائے توانہیں ہوائی جہازوں کے حملوں سے بچانا اس مشن کا صرف ایک حصہ ہے۔ اس مشن کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ انہیں لیبیا کی زمینی فوج سے بچایا جائے ۔ یہ بالکل مختلف کام ہے جس پر اب تک کوئی خاص کام نہیں ہوا ہے ۔ یہ کام کہیں زیادہ مشکل ہے۔‘‘

مراقش میں امریکہ کے سابق سفیر مارک گنزبرگ ان لوگوں سے متفق ہیں جو یہ کہتےہیں کہ ہوائی طاقت کی اپنی حدود ہوتی ہیں۔’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے نو فلائی زون کامیابی کے ساتھ قائم کر لیا ہے۔ لیکن جنگ صحیح معنوں میں زمین پر، شہری علاقوں میں ہو رہی ہے جہاں نو فلائی زون سے توپوں کے گولوں کو حزب اختلاف کے ٹھکانوں پر پہنچنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ تین ہفتے پہلے نو فلائی زون شاندار خیال تھا لیکن اب اس سے لیبیا میں انسانی مصائب کو کم نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

تو ماہرین کہتےہیں کہ اب سوال یہ ہے کہ کیا سویلین آبادی کو ہلاک و زخمی ہونے سے بچانے کے لیئے زمینی فوج کی ضرورت ہوگی؟ سفیر گنزبرگ کہتے ہیں کہ امریکی فورسز کو اس کام کے لیئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کام فرانس کو کرنا چاہیئے۔ قذافی کے ساتھ یہ جھگڑا شروع کرنے میں فرانس کو دلچسپی تھی۔

بہت سے تجزیہ کار، جیسے وارڈ کیرول کہتے ہیں عراق اور افغانستان کے بعد، اب امریکہ میں سیاسی طور پر لیبیا میں زمینی فوجیں بھیجنے کے لیئے فضا بالکل سازگار نہیں ہے۔’’اس معاملے کا ایک مالی پہلو بھی ہے۔ اتنے بڑے خسارے اور بے روزگاری کے حالات میں ، ہمارے پاس ایک اور جنگ کے لیئے پیسہ بالکل نہیں ہے ۔‘‘

لیکن کیرول کہتے ہیں کہ ان دشواریوں کے باوجود، جب بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہوں، تو امریکہ کے لوگ کھڑے تماشہ نہیں دیکھ سکتے۔

XS
SM
MD
LG