رسائی کے لنکس

لیبیا:تیل کی پیداوار اور برآمد کی بحالی پر توجہ


لیبیا کے شہر زاویہ میں واقع تیل کی ایک تنصیب
لیبیا کے شہر زاویہ میں واقع تیل کی ایک تنصیب

اگرچہ لیبیا کے بعض حصوں میں ابھی تک کچھ غیر یقینی کی کیفیت باقی ہے، بعض لوگوں نے ابھی سے بحالی کے امکانات کے بارے میں سوچنا شروع کر یا ہے ۔ تیل کی کمپنیاں، اور وہ ملک جن کا انحصار لیبیا کے قدرتی وسائل کی در آمد پر ہے، ملک کی تیل کی صنعت کی مکمل بحالی کے منصوبے بنا رہے ہیں۔

لیبیا میں معمر قذافی کی مخالف فورسز اس کے ہیڈ کوارٹرز کے کمپاؤنڈ پر قبضے کا جشن منا رہی ہیں۔ لیکن آنے والے دنوں میں ملک کو جن مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا ان میں جنگ سے تباہ حال شہروں اور بنیادی سہولتوں کی تعمیرنو کا مسئلہ بھی شامل ہے۔

تیل ملک کی اہم ترین صنعت ہے اور تیل کی پیداوار اور برآمدات کو بحال کرنا انتہائی اہم ہے ۔ افریقہ میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر لیبیا میں ہیں۔ ملک میں حکومت کے خلاف تحریک شروع ہونے سے پہلے روزانہ 18 لاکھ بیرل تیل نکالا جاتا تھا جو دنیا کی کُل پیداوار کا دو فیصد ہے ۔ خوش قسمتی سے، شہروں اور قصبوں کو جو نقصان پہنچا ہے، تیل کی صنعت اس سے بظاہر بڑی حد تک محفوظ رہی ہے ۔

آئی ایچ ایس انرجی میں، مشرقِ وسطیٰ کے سینیئر تجزیہ کار سیموئیل کسزوک کہتے ہیں کہ لیبیا جلد ہی جنگ سے پہلے کی سطح کے برابر تیل پیدا کرنا شروع کر سکتا ہے ۔ ’’جہاں تک ہمارے علم میں ہے، لیبیا میں تیل نکالنے والی بڑی کمپنیاں، جیسے ای این آئی، بلکہ ایسی کمپنیاں بھی جیسے ریپسول وغیرہ، جن کی جنوب مغربی علاقے میں بہت سی تنصیبات ہیں، نقصان سے بڑی حد تک محفوظ رہی ہیں۔‘‘

یقین سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ملک کی بر آمدات اور پیداوار کے انتظامات کا معائنہ کرنے اور انہیں دوبارہ واپس لانے میں کتنا وقت لگے گا۔ گذشتہ کئی دنوں میں، دنیا میں تیل کی قیمتوں میں بڑی حد تک لیبیا کے حالات کے مطابق اتار چڑھاؤ آیا ہے ۔ طرابلس پر باغیوں کی تیز رفتار یلغار کے بعد ، جب اقتدار پر معمر قذافی کی گرفت کمزور ہونا شروع ہوئی، تو تیل کی قیمتیں کم ہو گئیں ۔ لیکن جب قذافی کے حامیوں کی طرف سے مزاحمت جاری رہی، اور دنیا میں دوسرے اقتصادی عوامل میں اتار چڑھاؤ آیا، اور خام تیل کی لاگت پر دباؤ پڑا، تو قیمتیں پھر بڑھنا شروع ہو گئیں۔ لیبیا کا بیشتر تیل یورپ کو بر آمد کیا جاتا ہے۔ لیبیا سے سب سے زیادہ تیل در آمد کرنے والا ملک اٹلی ہے، اور چین اور دوسرے ملک بھی بڑی مقدار میں تیل درآمد کرتے ہیں۔

لیبیا کی نیشنل ٹرانزیشن کونسل کی اسٹیبلائزیشن ٹیم کے چیئر مین احمد جہانی نے کہا ہے کہ قذافی حکومت کے زوال سے پہلے تیل کے بارے میں جو سمجھوتے کیے گئے تھے ، انکی پابندی کی جائے گی۔’’تمام سودوں کی پابندی کی جائے گی۔ تمام قانونی کنٹریکٹ، وہ چاہے تیل اور گیس کمپلیکس میں ہوں یا کنٹریکٹنگ میں، قبول کیے جائیں گے ۔ اس وقت یہ اس حکومت کا کام نہیں ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ کوئی کنٹریکٹ منسوخ کیے جائیں گے یا نہیں۔‘‘

بین الاقوامی برادری نے لیبیا کی مد د کرنے اور تعمیر نو میں اس کا ہاتھ بٹانے میں رضا مندی کا اظہار کیا ہے اور عنقریب اقوامِ متحدہ لیبیا کے مستقبل کے بارے میں ایک میٹنگ کر نے والی ہے۔ بعض علاقائی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے، لیبیا میں بنیادی سہولتوں کا نظام کمزور تھا ۔ اس لیے تعمیرِ نو کا کام محدود ہو گا۔ لیکن نئے لیبیا کی تعمیر کے لیے پیسہ درکار ہو گا۔

مائیکل ڈن جو اٹلانٹک کونسل میں رفیق حریری سینٹر فار دی مڈل ایسٹ کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ یہ ایسا کام ہے جس کے لیے لیبیا اچھی طرح تیار ہے ۔ ’’لیبیا کو وہ مسئلہ درپیش نہیں ہو گا جس کا بعض دوسرے ملکوں کو سامنا کرنا پڑا ہے کیوں کہ اس کے پاس پیسہ موجود ہو گا۔ اگر آپ کے پاس تعمیر نو کے کام کی ادائیگی کے لیے نقد رقم موجود ہے، تو پھر یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔‘‘

ڈن کہتے ہیں کہ تیل کی پیداوار جلد شروع ہونے سے مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ، معمر قذافی کے اربوں ڈالر کی واپسی سے بھی جو بیرون ملک منجمد کر دیے گئے ہیں، مدد ملے گی۔ اقوام متحدہ نے یہ اثاثے فروری میں منجمد کر دیے تھے اور اب بین الاقوامی برادری یہ کوشش کر رہی ہے کہ یہ فنڈز جن کی فوری ضرورت ہے، جلد از جلد قذافی کے مخالفین کو جاری کر دیے جائیں۔

XS
SM
MD
LG