رسائی کے لنکس

قطر کی مشرق وسطیٰ میں اثرورسوخ بڑھانے کی کوششیں


لیبیا اور قطر کے وزرائے خزانہ
لیبیا اور قطر کے وزرائے خزانہ

قطر کے بہت سے ہمسایہ ممالک میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے لیکن خلیج فارس کا یہ چھوٹا سا ملک بدستور علاقے میں اپنا قائدانہ کردار مضبوط کر رہا ہے ۔لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ ملک جہاں مطلق العنان بادشاہت قائم ہے، عرب موسم بہار کے بعدکے مشرقِ وسطیٰ میں اپناقائدانہ رول قائم رکھ سکے گا یا نہیں۔

مارچ میں جب خلیجِ فارس کے ملک قطر نے قذافی کی فورسز کے خلاف نیٹو کے جنگی مشن کو مزید تقویت دینے کے لیے اپنے فوجی بھیجے، توساری دنیا میں اسکی واہ واہ ہوئی۔ قطر پہلا عرب ملک تھا جس نے یہ کارروائی کی۔

قطر کی مدد یہاں ختم نہیں ہوئی۔ باغیوں کو لیبیا کے جائز نمائندوں کی حیثیت سے تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک بھی قطر ہی تھا۔ اس نے لیبیا کے بارے میں پہلے کنٹیکٹ گروپ کی میزبانی کی، اور اپنی تیل کی وسیع دولت کو باغیوں کی نیشنل ٹرانزیشنل کونسل کو 40 کروڑ ڈالر کی امداددینے کے لیے بھی استعمال کیا۔

بین الاقوامی میڈیا کی بعض رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ قطر کے یہ اقدامات کسی حد تک غیر متوقع تھے ۔ تا ہم، خلیج کے تجزیہ کار، مہران کامراوا جو جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے دوہا میں قائم سینٹر فار انٹرنیشنل اینڈ ریجنل اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں، کہتے ہیں کہ انہیں اس پر حیرت نہیں ہوئی۔ ’’ابتدا ہی سے لیبیا کے معاملے میں قطر کی اتنی زیادہ دلچسپی پر ہمیں بہت زیادہ حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ یہ اس ڈپلومیسی میں اس کے بہت سرگرم رول کے مطابق ہے جس کی بدولت علاقائی معاملات میں قطر کو بڑا نمایاں مقام حاصل ہو گیا ہے۔‘‘

کچھ تنقید بھی ہوئی ہے ۔ نیو یارک میں قائم کونسل آن فارن ریلیشنز کے الیوٹ ابرامز کہتے ہیں کہ یہ صحیح ہے کہ قطر ، لیبیا میں اہم شراکت دار رہا ہے ،لیکن اس کااصل مقصد صرف اپنے مفادات کو آگے بڑھانا ہے ۔’’باغیوں کی حمایت کے فیصلے کی بنیاد کوئی بڑی اصول پرستی نہیں تھی ۔ بات یہ نہیں ہے کہ وہ جمہوریت اور ذاتی آزادی کا فروغ چاہتے ہیں ، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ بحرین میں وہ موقف اختیار نہ کرتے جو انھوں نے کیا ہے ۔‘‘

ایک طرف جب قطر نے لیبیا میں فوجی کارروائی کی حمایت شروع کی تو دوسری طرف گلف کوآپریشن کونسل جس کا قطر بھی رکن ہے، بحرین میں جمہوریت کی حمایت میں مظاہروں کو کچلنے کے لیے بھی اپنے فوجی استعمال کر رہی تھی ۔ قطر کے لیڈر، شیخ حماد بن خلیفہ الثانی نے بعد میں بحرین میں حکومت کے مخالفین کے خلاف کارروائی کی حمایت کی ۔ انسانی حقوق کے حامی گروپوں کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں میں 30 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔

ابرامز کے مطابق، خارجہ امور میں قطر نے جو یہ مختلف موقف اختیار کیے ہیں،ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خارجہ پالیسی کے معاملے میں بڑی احتیاط سے مختلف اندازِ فکر، اور شعوری طور پر ترتیب دی ہوئی پالیسی پر عمل کرتا رہے گا۔’’ممکن ہے کہ اگلی بار ہم اور قطر مختلف راہ اختیار کریں۔ ضروری نہیں کہ قطر کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہمارے لیے اچھا ہی ثابت ہو۔ یہ باعثِ رحمت بھی ہو سکتا ہے اور باعث ِ زحمت بھی۔‘‘

قطر، امریکہ اور ایران، دونوں کا اتحادی ہے ۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ اپنے بین الاقوامی تعلقات کو کس نہج پر آگے بڑھائے گا۔ تا ہم یہ بات یقینی ہے کہ وہ جتنی جلدی ممکن ہو گا، نئے لیبیا سے فوائد حاصل کر نے کی کوشش شروع کر دے گا۔

لیبیا میں سرمایہ کاری کے بے اندازہ مواقع موجود ہیں ۔ اس کی قومی تیل کمپنی جس کی دسترس میں افریقہ کے خام تیل کے سب سے بڑے ذخائر ہیں، انتہائی منافع بخش ہے ۔

Rutgers یونیورسٹی میں مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر، ٹوبی جونز کہتے ہیں کہ اگرچہ بیرونی ممالک اس بات کا اندازہ لگا رہے ہیں کہ وہ لیبیا کے بحران سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لیکن ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ کونسا ملک تعمیر نو کے کام میں حصہ لے گا اور کس حیثیت سے۔’’طرابلس میں حالات معمول پر آنے کے بعد اصل اختیارات کس کے پاس ہوں گے، یہ ابھی واضح نہیں ہے، اور اس سے بالآخر یہ طے ہوگا کہ کون سی علاقائی طاقتیں موئثر ہوں گی، قطر،متحدہ عرب امارات ،مصر یا کوئی اور۔بلکہ اس کے بعدہی یہ تعین ہو گا کہ لیبیا میں کون سی عالمی طاقتوں کاعمل دخل ہوگا۔‘‘

قطر کو چینی، روسی اور مغربی کمپنیوں سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ اور اگرچہ ہو سکتا ہے کہ اس چھوٹے سے ملک کی بے اندازہ دولت، فی الحال لیبیا کے باغیوں پر اثر انداز ہو جائے، لیکن یہ ضرور ی نہیں کہ مستقبل میں بھی ایسا ہی ہو۔

ابرامز کہتے ہیں کہ یہی بات علاقے میں قطر کی قیادت کے لیے بھی کہی جا سکتی ہے ۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ جیسے جیسے مشرقِ وسطیٰ میں مزید ممالک جمہوریت کی طرف پیش قدمی کی کوشش کریں، قطر کی اہمیت ختم ہو جائے۔’’اگر ان ملکوںمیں نئی جمہوری قیادت سامنے آئی، تو میرے خیال میں اگر ان کے پاس قطریوں جیسی دولت نہ ہوئی تو بھی ، وہ قطر کوچیلنج کر سکتے ہیں۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو عرب دنیا کی قیادت کا کیا حق ہے؟ آپ کی آبادی بہت کم ہے، اور آپکے ملک ،میں مطلق العنان بادشاہت قائم ہے۔ عرب دنیا کی قیادت ہم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

لہٰذا جیسے جیسے جمہوریت کے مطالبوں سے اس علاقے کے ہر کونے میں تبدیلی آئے گی، ایسا لگتا ہے کہ قطرکو انتظارکرنا ہوگا اوریہ دیکھنا ہوگا کہ نہ صرف نئے لیبیا میں، بلکہ نئے مشرقِ وسطیٰ میں اس کا رول کیا ہوگا۔

XS
SM
MD
LG