لیبیا کے وسطی اورمغربی علاقوں میں حکومت مخالف جنگجو معمرقذافی کی حامی افواج سے بر سر ِپیکار ہیں، اور اُدھر حزب مخالف کے رہنماؤں نے مشرقی لیبیا میں ایک عارضی حکمراں کونسل تشکیل دی ہے جو ایک نیا دستور مرتب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اِس حوالے سے جاری بات چیت میں اِس پہلو پر بھی توجہ دی جارہی ہے کہ مذہب کا اِس نئے دستور میں کیا کردار ہو گا۔ مشرقی لیبیا بنیادی طور پر مسلمان آبادی کا علاقہ ہے۔
بن غازی سے ’وائس آف امریکہ‘ کے اسکاٹ بوب نے اس بارے میں متعدد رہنماؤں سے بات چیت پر مبنی یہ رپورٹ ارسال کی ہے۔
لیبیا کےاِن علاقوں میں جہاں اپوزیشن کا کنٹرول ہےمخالف رہنما اپنی بغاوت کو ایک انقلاب کا نام دیتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ وہ نئے آئین کے ذریعے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی قائم کر سکیں گے۔
بن غازی کی گیری یونس یونیورسٹی میں مذہبی قانون کے پروفیسراوسامہ السلادی کا کہنا ہے کہ لیبیا کے رہنما معمر قذافی کے اکتالیس سالہ دور ِاقتدار میں سیاسی اور مذہبی اداروں کو یکساں طور پر جبر کا سامنا کرنا پڑا۔
اوسامہ کہہ رہے ہیں: ’ہم ایک ایسی جمہوری اور آئینی ریاست کےخواہاں ہیں جو سول اداروں کے تابع ہو اورجہاں کوئی ایک خاندان یا فردِ واحد سیاہ و سفید کا مالک نہ ہو ۔‘
مگر اس نوزائیدہ ریاست کے بارے میں کچھ مبصرین کو خدشہ ہےکہیں شدت پسند مسلمان اِس پر قبضہ نہ کر لیں۔ السلادی اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے۔ تاہم وہ یہ مانتے ہیں کہ مذہبی رہنما اس ریاست کی تعمیر میں ایک کردار ضرور ادا کریں گے۔
لیکن مشرقی لیبیا میں قائم ہونے والی عارضی حکمران کونسل کے سیاسی مشیر پروفیسر ذاہی مغربی کا کہنا ہے کہ قذافی کے دور حکومت میں شخصی آزادیوں کو کچلا گیا جس سے مذہبی انتہا پسندی کوتقویت ملی۔ تاہم جب آپ ایک آزاد معاشرہ قائم کر لیں گے جہاں ہر شخص کے پاس یہ حق ہو گا کہ وہ سرکاری امور پر بات کر سکے اور کسی بھی عہدے کیلئے انتخاب لڑ سکے تو میرے خیال میں پھر بہت سے شدت پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی ہو گی یا پھر وہ سرے سے ختم ہو جائیں گے۔
ادھر عارضی کونسل کے ترجمان مصطفی غیرانی کا کہنا ہے کہ لیبیا میں غالب اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے اسلئے یہاں اس قسم کی فرقہ وارانہ تقسیم نظر نہیں آتی جس سے کہ چند دوسرے مسلمان ملکوں میں شدت پسندی کو ہوا ملی ہے۔
غیرانی کہتے ہیں: ’اُن کے پاس ایسی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ لیبیا کا معاشرہ آپس میں باہم مربوط ہے۔ یہاں لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ اس لئے یہاں خود کش حملہ آوروں کی گنجائش نہیں ہے۔ اور ہم اِن سے نہیں ڈرتے۔ جمہوریت میں آپ سیاسی نظریات سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔ ‘
جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک کاروباری شخص اُ لِرچ روئٹر کہتے ہیں یہ خدشات ہی بے بنیاد ہیں کہ اسلامی شدت پسند اس انقلاب کو لے اڑیں گے ۔
الرچ کے نزدیک یہ صرف افواہیں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ آٹھ سال سے یہاں کے لوگوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں اورانہوں نے لیبیا کا چپہ چپہ دیکھا ہے ۔ انہیں کہیں بھی مذہبی یا اس سے منسلک مسائل نظر نہیں آئے۔ لوگ صرف یہاں کے نظام سے خوش نہیں ہیں۔
تاہم، غیر جانبدار تجزیہ کاروں کے نزدیک لیبیائی عوام کو متحرک کرنے کیلئے وہ چاہے قذافی کے خلاف ہوں یا پھر حق میں دونوں صورتوں میں اسلام کا سہارا لیا گیا ہے۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ مذہب کو کم از کم سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا گیا۔