لیبیا کے پُر تشدد بحران میں جو طاقتیں بر سرِ پیکار ہیں وہ اپنے اپنے قدم جماتی جا رہی ہیں۔ معمر قذافی کے مخالفین نے ملک کے مشرقی حصے پر کنٹرول مضبوط کر لیا ہے۔ انہیں فوج کے بعض یونٹوں کی مدد حاصل ہے جو قذافی کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ دوسری طرف، دارالحکومت طرابلس اب بھی لیبیا کے لیڈر کے کنٹرول میں ہے اور انہیں اپنی وفادار سیکورٹی فورسز اور ملیشیا کے یونٹوں کی حمایت حاصل ہے ۔
کارنیج انڈوومنٹ فارانٹرنیشنل پیس میں مشرق وسطیٰ کے امور کی ماہر میشیل ڈنی کہتی ہیں’’اس وقت لیبیا کی صورتِ حال خاصی پریشان کن ہے ۔ ایسے آثار نظر نہیں آتے کہ تیونس اور مصر کی طرح لیبیا کا مسئلہ پُر امن طریقے سے حل ہو سکے گا اور نہ ہی یہ بات واضح ہے کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصے تک خون خرابہ جاری رہے یا خانہ جنگی کی نوبت آ جائے اور کچھ عرصے تک لیبیا اس کی لپیٹ میں رہے۔‘‘
لیبیا کی فوج کئی ٹکڑوں میں بٹتی جا رہی ہے۔ کچھ فوجی افسر احتجاج کرنے والوں سے آ ملے ہیں جب کہ بعض افسر مسٹر قذافی کے احکامات کی تعمیل کر رہے ہیں اور مخالفین کے خلاف طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔
ڈیوڈ میک واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں اسکالر ہیں، اور چالیس سال قبل جب مسٹر قذافی نے اقتدار پر قبضہ کیا، اس وقت وہ طرابلس میں امریکی سفارتکار تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ باغی اور سرکاری فوجوں کے درمیان اب بھی لڑائی جاری ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب تعطل کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔’’فی الحال تو ملک کے مشرقی حصے میں باغی محفوظ ہیں، اگر وہ آپس میں لڑنا شروع نہیں کرتے۔ قذافی کی وفادار فوجیں انہیں زیر نہیں کر سکتیں۔ بُری خبر یہ ہے کہ باغیوں میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ مشرقی لیبیا اور مغرب میں چند قصبوں سے نکل کر قذافی کے خلاف کارروائی کر سکیں۔‘‘
انٹرنیٹ ویب سائٹ GlobalSecurity.org کا کہنا ہے کہ مسٹر قذافی نے سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین سے سینکڑوں جنگی ہوائی جہاز اور ہزاروں ٹینک خریدے تھے، لیکن ا س سازو سامان کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی گئی ہے۔
ملکی اور بین الاقوامی مطالبات کے باوجود مسٹر قذافی نے بار بار عہد کیا ہے کہ وہ اقتدار نہیں چھوڑیں گے ۔ مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈیوڈ میک کہتے ہیں’’انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ آخری گولی تک لڑیں گے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کیوں کہ اس طرح لیبیا کے بہت سے بے گناہ لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ میرے خیال میں لیبیا کے باہر کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں قذافی بحفاظت رہ سکیں۔ اس لیئے میرے خیال میں وہ ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گے‘‘۔
مغربی ممالک اس امکان پر غور کر رہے ہیں کہ لیبیا کو نو فلائی زون قرار دے دیا جائے تا کہ مسٹر قذافی کی وفادار فوجیں سویلین باشندوں کو ہلاک نہ کر سکیں۔ اطلاعات کے مطابق لیبیا کے ہوائی جہازوں نے گولہ بارود کے ذخائر پر حملے کیئے ہیں تاکہ فوجی سازو سامان باغیوں کے ہاتھ نہ لگنے پائے۔
واشنگٹن میں رینڈ کارپوریشن کے چارلس ریس کہتے ہیں کہ اگر فضائی طاقت مخالفین پر گولیاں برسانے کے لیئے استعمال کی جا رہی ہے، تو بین الاقوامی برادری مداخلت کر سکتی ہے۔ ’’اگر ہوائی جہاز اس فوجی طاقت کا حصہ بن جاتے ہیں جو قذافی اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیئے استعمال کر رہے ہیں، تو میرے خیال میں مغربی طاقتیں تیزی سے no-fly zone قائم کر دیں گی۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ لیبیا میں آج کل کوئی مضبوط سیاسی یا فوجی تنظیمیں موجود نہیں ہیں ۔ اس لیئے اگر قذافی ملک چھوڑ دیتے ہیں ، تو اس کے بعد بھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ لیبیا پر حکومت کون کرے گا۔