بدھ کو صدربراک اوباما کی قومی سلامتی کی ٹیم کا ایسےوقت اجلاس ہوا، جب صدر نے لیبیا کی صورتِ حال پر آئندہ کے اقدامات پر غور کیا ہے۔ وائس آف امریکہ کےوائٹ ہاؤس کےسینئرنامہ نگار ڈین رابنسن نے رپورٹ دی ہے کہ مسٹر اوباما کسی خاص اقدام کرنے پر تیار نہیں ہیں جس کے بارے میں مشیروں کا کہنا ہے کہ اُس پر بین الاقوامی ساجھےداروں کے درمیان اتفاقِ رائے کی ضرورت پڑے گی۔
ایسے میں جب امریکہ اوردیگرممالک لیبیا کو مربوط جواب دینے کی تیاری کر رہے ہیں صدر اوباما اِس شمال افریقی ملک کی صورتِ حال پر تواتر کےساتھ بریفنگ حاصل کر رہے ہیں۔
رہنما اصولوں کے بارے میں قومی سلامتی کونسل کا بدھ کو اجلاس ہوا جِس میں محکمہ ہائے خارجہ اور دفاع، فوج کے جوائنٹ چیفز آف اسٹاف، اور سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے عہدے دار شریک ہوئے۔
تاہم، وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری جے کارنی نے واضح کیا کہ اِس اجلاس کے نتیجے میں کسی قسم کے فیصلےیا سفارشات سامنے نہیں آئیں گی جِن پر صدارتی احکام کی ضرورت پڑے۔
اُنھوں نے بتایا کہ ابھی کسی فیصلے کا وقت نہیں آیا اور یہ کہ ابھی آپشنز پرغور ہو رہا ہےجس میں نو فلائی زون کےبارے میں غورو خوض شامل ہے۔
جمعرات کے روز امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس برسلز میں نیٹو کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں شرکت کرنے والے ہیں جس میں دھیان لیبیا پر ہنگامی اقدام کرنےاور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی تقسیم کی تیاریوں پر مرتکز رہے گا۔
اُن کے الفاظ میں امریکہ اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے پہلے ہی کیے گئے ’ ڈرامائی ‘ نوعیت کے اقدامات میں لیبیا کے خلاف تعزیرات شامل ہیں، جِن کے بارے میں کارنی نے کہا کہ مزید اقدامات کے لیے کوئی نظام الاوقات مقرر نہیں۔ تاہم ، اُنھوں نے مربوط قدم لینے کی اہمیت پر زور دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ لیبیا کے لوگوں، لیبیا کی حکومت اور خطے کے لوگوں کےلیے ایک طاقت ور پیغام ہے کہ اِس معاملے کا تعلق امریکہ سے نہیں ۔ یہ مغربی طاقتوں، یورپی طاقتوں سےمتعلق نہیں ہے، یہ خطے کے لوگوں کے بارے میں ہے اور اِس کیس میں لیبیا کے لوگوں سے متعلق ہے۔
لیبیا کے لیڈر معمر قذافی نے اُن کے ملک پر نو فلائی زون کے نفاذ کی کسی کوشش کے خلاف انتباہ دیتے ہوئے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا ہے کہ اِس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ لیبیا کے لوگ مغربی ممالک کے خلاف ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔