پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کے چڑیا گھر کی انتظامیہ نے جگہ کی کمی کے باعث 12 شیروں کو نیلام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لاہور چڑیا گھر کے ایک درجن شیر آئندہ ہفتے نجی کلیکٹرز کو نیلام کردیے جائیں گے کیوں کہ شیروں کی نسل تیزی سے بڑھ رہی ہے اور جگہ کم ہوگئی ہے۔
چڑیا گھر کے ڈپٹی ڈائریکٹر تنویر احمد جنجوعہ کہتے ہیں کہ لاہور کے سفاری چڑیا گھر میں شیروں کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث اُن کے لیے بنائے گئے احاطے کم پڑ رہے ہیں۔
انہوں نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ اس نیلامی سے نہ صرف مزید جگہ خالی ہوگی بلکہ ان کی خوراک کے لیے گوشت کے اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔
لاہور کے اس چڑیا گھر میں اس وقت 29 شیر ہیں اور حکام کا منصوبہ ہے کہ وہ 11 اگست کو ان میں سے 12 کو نیلام کردیں گے۔ جن شیروں کی نیلامی کا منصوبہ ہے ان کی عمریں دو سے پانچ سال کے درمیان ہیں۔
چڑیا گھر میں چھ رہائشی ٹائیگرز اور دو جیگوار بھی ہیں۔
جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اس فروخت کی مخالفت کر تے ہیں۔ ماحولیاتی گروپ ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ ان جانوروں کو دوسرے چڑیا گھروں میں منتقل کرنا چاہیے یا شیرنیوں کو مانع حمل ادویات دی جائیں۔
اس تنظیم کی رکن عظمیٰ خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ چڑیا گھروں کے درمیان جانوروں کا تبادلہ اور عطیات وسیع پیمانے پرقابل قبول عمل ہے۔
ان کے بقول جب چڑیا گھر جیسا ادارہ جنگلی حیات کی تجارت کو فروغ دیتا ہے تو اس سے جانوروں کے تحفظ کو نقصان پہنچتا ہے۔
خیال رہے کہ جانوروں کی بہبود کے لیے پاکستان میں بہت کم قانون سازی ہوئی ہے۔ ملک بھر کے چڑیا گھر اپنی ناقص سہولیات کی وجہ سے تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ البتہ لاہور کا سفاری چڑیا گھر جو 200 ایکڑ سے زائد رقبے پر مشتمل ہے بہترین چڑیا گھروں میں شار کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں شیروں، ٹائیگروں اور دیگر جنگلی حیات کو بطور پالتو جانور رکھنا غیرمعمولی نہیں ہے اور اسےاسٹیٹس سمبل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
دولت مند مالکان اپنے پالتو جانوروں کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں اور انہیں فلموں اور فوٹو شوٹس کے لیے کرائے پر دیتے ہیں۔
چڑیا گھر حکام نے فی شیر کے لیے ابتدائی بولی ڈیڑھ لاکھ روپے رکھی ہے لیکن انہیں امید ہے کہ ہر شیر کے تقریباً 20 لاکھ روپے مل جائیں گے۔
تاہم اس نیلامی میں ہر کوئی حصہ نہیں لے سکتا ہے۔
تنویر احمد جنجوعہ کا کہنا ہے کہ خریداروں کو صوبائی حکام کے پاس رجسٹرڈ ہونا ہوگا اور جانور کی دیکھ بھال اور اسے پناہ گاہ فراہم کرنے کے ذرائع دکھانا ہوں گے۔
چڑیا گھر کے افسر محمد رضوان خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ شیروں کی نیلامی کی ابتدائی کوشش گزشتہ برس ناکام ہوگئی تھی کیوں کہ خریداروں کے پاس ضروری دستاویزات یا لائسنسز نہیں تھے۔
نعمان حسن جو ماضی میں حکام کی تنقید کا نشانہ بنے تھے، وہ بھی اس مرتبہ نیلامی میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
خیال رہے کہ ماضی میں نعمان کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب لاہور میں ان کی اپنے پالتو شیر کے گلے میں زنجیر ڈال کر چلتے ہوئے ویڈیو سامنے آئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ دو سے تین شیر خریدنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے بقول نیلامی نجی کلیکٹرز کے لیے ایک اچھا طریقہ ہے، خاص طور پر ان کے لیے جو پہلے سے اس طرح کا بڑے سائز کا جنگلی جانور رکھتے ہیں۔
اس خبر کے لیے خبررساں ادارے 'اے ایف پی' سے معلومات لی گئی ہیں۔