افغانستان کے دارالحکومت کابل میں محرم کے ماتمی جلوس میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں آٹھ افراد ہلاک جب کہ 18 زخمی ہو گئے ہیں۔
نام نہاد دولتِ اسلامیہ (داعش کی مقامی شاخ) نے دھماکے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق جمعے کو شیعہ کمیونٹی کے افراد محرم کے سالانہ جلوس کے سلسلے میں کابل کے شیعہ اکثریتی مغربی علاقے میں جمع تھے کہ زوردار دھماکہ ہو گیا۔ ماتمی جلوس میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شریک تھی۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دھماکہ خیز مواد ایک ہتھ گاڑی میں نصب تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ دھماکے کے نتیجے میں'' بے گناہ شہری ''ہلاک ہوئے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد کا اپنے بیان میں مزید کہنا تھا کہ طالبان حکومت ''اس بزدلانہ حملے ''کی بھرپور مذمت کرتی ہے۔ اُن کے بقول یہ حملہ'' اسلام اور افغانستان کے دُشمنوں'' نے کیا ہے۔
قبل ازیں بدھ کو طالبان نے کابل میں داعش (خراسان) کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ کارروائی میں داعش کے چار جنگجوؤں کو ہلاک جب کہ ایک کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
کارروائی کے بعد ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں بتایا کہ عسکریت پسند محرم کے جلوسوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ داعش افغانستان میں شیعہ کمیونٹی کے خلاف ہونے والے حملوں کی ذمے داری قبول کرتی رہی ہے۔
دوسری جانب افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ اس نے ملک بھر میں داعش کے قلع قمع کے لیے مؤثر کارروائیاں کی ہیں اور شدت پسند تنظیم اب کمزور پڑ چکی ہے۔
امریکہ مخالف مظاہرے
داعش کی جانب سے شیعہ کمیونٹی پر حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب افغانستان کے اہم شہروں میں القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد امریکہ کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔
افغان ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی فوٹیجز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سینکڑوں مظاہرین کابل اور دیگر شہروں میں جمع ہوئے اور امریکہ کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔
جمعے کو افغان طالبان کی جانب سے منظم کیے جانے والے ان احتجاجی مظاہروں سے ایک روز قبل طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ اُنہیں ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی کا علم نہیں تھا۔
طالبان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے کابل میں ڈرون حملہ کر کے دوحہ امن معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جب کہ امریکی حکام کا یہ مؤقف ہے کہ طالبان نے دہشت گردوں کو پناہ دے کر اس معاہدے کی خلاف ورزی کی۔