ن لیگ اور پی پی کے ساتھ عدالتی اصلاحات لانے پر اتفاق ہو گیا: مولانا فضل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام فضل الرحمٰن گروپ نے چھبیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے عدالتی اصلاحات لانے پر اتفاقِ کر لیا ہے۔
مولانافضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ عدالتی اصلاحات کے لیے پاکستان تحریک انصاف کا اتفاق رائے بھی حاصل کیا جائے گا۔
مجوزہ چھبیسویں آئینی ترمیم پر مشاورت اور حتمی منظوری کے لیے مشاورتی اجلاس بدھ کو جاتی امرا میں ہوا۔ نواز شریف کی میزبانی میں ہونے والے مشاورتی اجلاس میں صدر آصف زرداری، چئیرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی اور دیگر سیاسی قیادت شریک ہوئی۔
اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ تینوں جماعتوں میں عدلیہ میں اصلاحات کے لیے مشاورت کا عمل مکمل ہو گیا ہے اور تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے عدالتی اصلاحات لانے پر اتفاق کیا ہے۔
جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جس طرح تینوں جماعتوں نے مجوزہ آئینی ترمیم پر مشاورت کی ہے وہ جمعرات کی صبح پاکستان تحریک انصاف سے بھی مشاورت کریں گے اور اُن کا اتفاق رائے بھی حاصل کیا جائے گا۔
فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ آئین میں ایسی ترامیم لائی جائیں جو اداروں میں اصلاحات کا سبب بنیں اور آئین کی بالا دستی کو یقینی بنائیں۔ ادارے حدود میں رہیں اور سیاست میں مداخلت نہ کریں۔ اُںہوں نے مزید کہا کہ مشاورت کے بعد وہ اتفاق رائے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
آئینی ترمیم کی ممکنہ منظوری؛ پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس آج ہوں گے
پاکستان کی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے علیحدہ علیحدہ اجلاس آج ہونے جا رہے ہیں اور ممکنہ طور پر دونوں ایوان چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری دیں گے۔
ایوانِ صدرِ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کا اجلاس آج سہ پہر تین بجے جب کہ ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی) کا اجلاس شام چار بجے ہو گا۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ایم بی سومرو نے وزارتِ پارلیمانی امور کے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ صدر نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی منظوری کے بعد اجلاس طلب کیے ہیں اور ممکنہ طور پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری لی جائے گی۔
مبصرین کے مطابق حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت درکار ہے۔ حکومت کو قومی اسمبلی میں 224 ارکان جب کہ سینیٹ میں 64 ارکان کے ووٹ درکار ہوں گے۔
اس وقت حکمران اتحاد کے قومی اسمبلی میں مجموعی طور پر 215 جب کہ سینیٹ میں 55 اراکین ہیں۔
پی ٹی آئی کا مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج کا اعلان
پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے آئینی ترامیم کے خلاف بھرپور مزاحمت کرنے اور جمعے کو ملک گیر سطح پر شدید احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کی زیرِ صدارت پارٹی کی سیاسی کمیٹی کا اجلاس بدھ کو اسلام آباد میں ہوا جس میں آئینی ترامیم کی بھرپور مزاحمت کا فیصلہ کیا گیا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق آئینی ترمیم کے ذریعے دستور کو مسخ کرنے کی حکومتی کوشش کو کسی طور پر قبول نہیں کی جائے گی۔
اجلاس میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں ترمیم کا راستہ روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش پر اتفاق کیا گیا جب کہ سیاسی کمیٹی نے عمران خان کے بنیادی حقوق اور ان کے اہلِ خانہ، وکلا اور تحریکی قائدین کی رسائی کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا۔