اختر مینگل سمیت بی این پی رہنماؤں کے خلاف اسلام آباد میں مقدمہ درج
اسلام آباد پولیس نے بلوچستان نیشنل پارٹی ( مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل سمیت پارٹی رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
اسلام آباد کے تھانہ سیکریٹریٹ میں درج مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ اختر مینگل اور ان کے ساتھی پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہوئے اور انہوں نے سینیٹ کے اسٹاف کو زد و کوب کیا۔
جوائنٹ سیکریٹری سینیٹ جمیل احمد کی مدعیت میں درج مقدمے میں دہشت گردی سمیت سات مختلف دفعات شامل کی گئی ہیں۔
مقدمے کے متن کے مطابق اختر مینگل اور ان کے ساتھی پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہوئے اور اس وقت ان کے پاس اسلحہ بھی تھا۔ ملزمان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔
عمران خان کو عدالت لا کر وکلا سے ملاقات کرانے کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو آج تین بجے عدالت لا کر وکلا سے ملاقات کرانے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کے دوران یہ حکم جاری کیا۔
پی ٹی آئی وکلا نے اڈیالہ جیل میں قید عمران خان سے ملاقات نہ کروانے پر توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔
بشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔
جیل انتظامیہ نے جمعرات کو رہائی کے روبکار ملنے کے بعد بشریِٰ بی بی کو جیل سے رہا کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ روز توشہ خانہ ریفرنس ٹو میں بشریٰ بی بی کی رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی موجودگی کی وجہ سے ہی 26 ویں آئینی ترمیم لانے کا موقع ملا : بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی موجودگی کی وجہ سے ہی 26 ویں آئینی ترمیم لانے کا موقع ملا کیوں کہ اتنا بڑا کام کسی اور چیف جسٹس کی موجودگی میں ممکن نہیں تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بلاول نے کہا ’ہمارے پاس ایک چیف جسٹس تھا، جو اپنے ساتھی ججوں کے دباؤ کا مقابلہ کر سکتا تھا، جو شاید اسے بھڑکانے کی کوشش کرتے کہ یہ آپ کا معاملہ نہیں بلکہ ججوں کی طاقت کا سوال ہے، ہمارے پاس وہ موقع تھا جب ہمارے پاس ایک ایسا شخص تھا جو ہماری کوششوں کو کمزور نہ کرتا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63-اے کا فیصلہ آئین پر مبنی نہیں تھا اور اس کے پیچھے سیاسی مقاصد تھے اور اگر اس نوعیت کے فیصلے نافذ ہو جاتے تو قانون سازی میں مشکلات پیش آتیں۔
ان کے بقول، "اتنا بڑا کام کسی اور چیف جسٹس کی موجودگی میں ممکن نہیں تھا۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں صرف ایک شخص ہےجو ہماری پوری تاریخ میں پارلیمنٹ کی اطاعت کرنے اور آئین کی پیروی کرنے کے لیے تیار تھا، چاہے یہ اُس کی ذاتی طاقت کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا ہمارے پاس ایک موقع تھا۔
انہوں نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں جس چیز کو سب سے زیادہ سیاسی رنگ دیا گیا اور اس کی بنیاد پر پورے عمل کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی وہ فوجی عدالتوں کا معاملہ تھا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ملک سے سیاسی انتقام کی روش کو ختم کرنا ہے تو پہلا قدم اُس شخص کو اٹھانا پڑے گا جو جیل میں بیٹھا ہوا ہے۔