کانگریس کی خط و کتابت پر تبصرہ نہیں کرتے، عمران خان کی رہائی کے مطالبے پر امریکی محکمۂ خارجہ کا ردِ عمل
امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے کانگریس ارکان کے عمران خان کی رہائی سے متعلق صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے حالیہ خط پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کانگریس کی خط و کتابت پر تبصرہ نہیں کرتے۔
ترجمان محکمۂ خارجہ نے کانگریس ارکان کے خط پر وی او اے کی ارم عباسی کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر کہا کہ ماضی میں بھی کہا ہے کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ پاکستانی عدالتوں کو ملکی قوانین اور آئین کے مطابق کرنا ہے۔
ترجمان محکمۂ خارجہ کے مطابق انسانی حقوق امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا ایک اہم جُز ہیں۔ ہم دیگر ممالک کی طرح پاکستان سے بھی ان مسائل پر باقاعدگی سے بات کرتے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ہم دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی جمہوری اصولوں، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے احترام کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان کے 60 سے زائد اراکین نے عمران خان کی رہائی کے لیے صدر جوبائیڈن کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ سابق وزیراعظم سمیت پاکستانی جیلوں سے سیاسی قیدیوں کی رہائی کی کوشش کی جائے۔
اراکین نے کہا کہ 2022 میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہوئے اور وہ اگست 2023 سے جیل میں ہیں۔
عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانے کا معاملہ، امریکہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا پرپوزل شیئر کر دیا، وزارتِ خارجہ
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے نمائندے نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی تجویز شیئر کر دی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے جمعے کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانے سے متعلق ان کی بہن فوزیہ صدیقی کی درخواست پر سماعت کی۔
عافیہ صدیقی اس وقت امریکہ کی ریاست ٹیکساس کی ایک وفاقی جیل میں 86 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ انہیں 2010 میں نیویارک کی وفاقی عدالت نے امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوشش سمیت سات الزامات میں سزا سنائی تھی۔
البتہ عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانے سے متعلق درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمعے کو سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومت عافیہ صدیقی کیس میں وفد امریکہ بھیجے گی جس میں موجودہ و سابق اراکینِ پارلیمنٹ، ریٹائرڈ یا حاضر سروس آرمی عہدیدار، ڈاکٹرز اور فوزیہ صدیقی شامل ہوں گی۔
اس موقع پر وزارتِ خارجہ کے نمائندے نے بھی عدالت کو بتایا کہ وزارت نے امریکہ کے ساتھ قیدیوں کے تبالے کے معاہدے کی تجویز ہے جب کہ سرکاری وکیل نے بتایا ہے کہ وزیرِ اعظم نے وفد امریکہ بھیجنے کی منظوری دے دی ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکہ کے صدر جو بائیڈن کو رواں ماہ ایک خط لکھا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانے سے متعلق درخواست پر سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز کے اعزاز میں الوداعی ریفرنس، کئی سینئر ججز شریک نہ ہوئے
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں الوداعی ریفرنس میں کئی سینئر ججز شریک نہیں ہوئے۔
اسلام آباد میں منعقدہ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منیب اختر ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس شہزاد ملک اور جسٹس عائشہ ملک نے شرکت نہیں کی۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ عمرے کی ادائیگی کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔
جسسٹس فائز عیسیٰ جمعے کو مدتِ ملازمت مکمل ہونے کے بعد عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی، جسٹس منصور کا خط
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے ریٹارڈ ہونے والے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فل کورٹ ریفرنس میں شرکت سے انکار کیا اور اس بارے میں رجسٹرار کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ میرا خط ریفرنس کے ریکارڈ پر رکھا جائے۔ خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ چیف جسٹس کا کردار لوگوں کے حقوق کا تحفط ہوتا ہے اور ایک چیف جسٹس نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہوتا ہے لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ پر بیرونی دباؤ کو نظر انداز کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ چیف جسٹس کی نظر میں عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی قدر نہیں اور چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلوں پر عمل درآمد نہ کیا جائے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی اور عدالتی رواداری و ہم آہنگی کے لیے لازمی احترام قائم کرنے میں ناکام رہے جس کے اثرات تا دیر عدلیہ پر رہیں گے۔
انہوں نے سابق چیف جسٹس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے آئینی حدود سے تجاوز کیا تھا اس لیے ان کے ریفرنس میں بھی شرکت سے انکار کیا تھا جس کی وجوہات بھی خط کے ذریعے بتائی تھیں۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے عدلیہ میں مداخلت کے بجائے دروازے مزید کھول دیے اور انہوں نے عدلیہ میں مداخلت پر شترمرغ کی طرح سر ریت میں دبائے رکھا۔ سینئر ترین جج نے الزام عائد کیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی عدلیہ میں مداخلت پر ملی بھگت کے مرتکب رہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی نظر میں عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی قدر و عزت نہیں، چیف جسٹس نے شرمناک انداز میں کہا کہ فیصلوں پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا عدالت عظمیٰ کے اعلیٰ ترین جج کی حیثیت سے آج آخری دن ہے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے فل کورٹ ریفرنس میں سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ جسٹس ملک شہزاد، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک بھی شریک نہیں ہیں۔ ان ججز کی عدم شرکت سے عدلیہ میں تقسیم کا تاثر مزید گہرا ہورہا ہے۔