رسائی کے لنکس

ایل او سی پر جنگ بندی کا ایک سال:'لوگ خوش ہیں اور سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان اور بھارت کی فوجی قیادت نے جب گزشتہ برس 25 فروری کو یہ اعلان کیا کہ وہ متنازع کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور دوسرے سیکٹرز میں جنگ بندی کے معاہدے پر سختی سے عملدرآرمد پر آمادہ ہو گئے ہیں تو سرحد کے دونوں جانب خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔

بھارت کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز لیفٹننٹ جنرل مجیت سنگھ سانگھا اور ان کے پاکستانی ہم منصب میجر جنرل نعمان زکریا کے اس اتفاقِ رائے کا دونوں ملکوں کی سیاسی جماعتوں نے بھی خیرمقدم کیا تھا جب کہ عالمی سطح پر بھی اسے ایک خوش آئند قدم قرار دیا گیا تھا۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس، امریکہ، برطانیہ اور کئی دیگر ممالک نے جنگ بندی کے معاہدےکی تجدید کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کے لیے ایک مثبت قدم قرار دیا تھا۔

سرحد پر رہنے والے لوگ خوش

لیکن ان سب سے زیادہ لائن آف کنٹرول اور سیالکوٹ-جموں سرحد جو پاکستان میں ورکنگ باؤنڈری اور بھارت میں انٹرنیشنل سرحد کہلاتی ہے، کے دونوں اطراف رہنے والے شہریوں نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

یہ لوگ سالہا سال سے جاری سرحدی تناؤ اور مقابل فوجیوں کے مابین آ ئے دن ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے علاوہ طرح طرح کی مشکلات اور مصائب سے دوچار تھے۔

سرحدی علاقے اوڑی کے ایک شہری عبدالمجید میر اس بات پر خوش ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان نومبر 2003میں طے پائےجنگ بندی کے معاہدے کی تجدید کا ایک سال گزر چکا ہے ۔ایل او سی پر امن برقرار ہے اور دونوں جانب رہنے والے لوگ سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

اوڑی ہی کے ایک اور شہری حاجی محمد حنیف کا کہنا ہے کہ سرحدی علاقوں میں اب معمول کی زندگی رواں دواں ہے، کسان کھیتوں میں بلا کسی خوف کے کام کررہے ہیں ، تعلیمی اداروں میں درس و تدریس بلا رکاوٹ جاری ہے اور ترقیاتی کام بھی آسانی سے انجام دیے جارہے ہیں۔

'اب بچے کھلی جگہوں پر بِلا خوف کھیل کود رہے ہیں '

دوسری جانب عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے سبب اسکولوں میں داخلہ لینے والے طلبہ اور طالبات کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور ایل او سی اور سیالکوٹ جموں سرحد کے قریب واقع تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی تیزی آگئی ہے۔

اوڑی کے ایک مقامی صحافی ارشاد احمد خواجہ کا کہنا ہے والدین اب بچوں کو کسی خوف کے بغیر اسکول بھیجتے ہیں اور بچے جب گھر پر ہوتے ہیں تو بند کمروں کے بجائے کھلی جگہوں پر جاکر کھیلتے کودتے ہیں۔

ان کے بقول "جب مقابل فوجیوں کے درمیان آئے دن جھڑپیں ہوتی تھیں اور شہریوں پر بارود کی بارش برس رہی ہوتی تھی تو ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ بچے ہی کیا ہم سب کی زندگیاں اجیرن بنادی گئی تھیں۔ ہر سو ہر وقت خوف طاری تھا۔"

پاکستان بھارت جنگ بندی معاہدہ

بھارت اورپاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادتوں کے مابین کئی ماہ تک جاری رہنے والی گفتگو ، داخلی اور خارجی عوامل اور ترغیب کے بعد نومبر 2003 میں ایل او سی اور کشمیر میں دیگر سیکٹرز میں جنگ بندی کے لیے ایک سمجھوتہ ہوا تھا۔ اس وقت دونوں ممالک کے عوام اور سیاسی جماعتوں نے اس پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

البتہ یہ معاہدہ عملی طور پر پائیدار ثابت نہیں ہوسکا۔ بہت جلد دونوں ملکوں کی افواج نےایک دوسرے کے ٹھکانوں کو ہلکے اور درمیانی درجے کے ہتھیاروں سے ہدف بنانا شروع کردیا اور پھر ہر ایک ایسے واقعے کے بعد ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا۔

'غیراعلانیہ جنگ جاری تھی'

سال 2010 کے بعد اس طرح کی جھڑپوں میں شدت دیکھنے کو ملی۔ ہر سال دونوں جانب درجنوں فوجی ہلاک اور زخمی ہوتے لیکن سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان سرحد کے قریب رہنے والے شہریوں کو اٹھانا پڑا۔نیز شہریوں کو اپنی جانیں بچانے کے لیے اکثر اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر پناہ لیناپڑتی تھی۔

صحافی اور کالم نگار ارون جوشی کہتے ہیں کہ ''یہ بغیر اعلان کے جنگ تھی جو 24 فروری 2021 کی صبح تک جاری رہی۔''

گزشتہ سال 25 فروری کو جنگ بندی کے معاہدےکی تجدید کا اعلان ہوا تھا تو اوڑی کے شہری صادق علی نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ جب تک سرحدوں پر نہ ختم ہونے والے تناؤ اور دونوں ملکوں کے درمیان تنازعے کی جڑ یعنی مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کیا جاتا ہے۔ اس طرح کا کوئی بھی اتفاقِ رائے پائیدار ثابت نہیں ہوسکتا۔ وہ آج بھی اپنے اس موقف پر قائم ہیں لیکن انہیں بھی خوشی ہے کہ" کم از کم ایک سال ایسا تو گزرا جب سرحد کے قریب رہنے والے کسی بے گناہ شہری کا خون بہا اورنہ کوئی گھر اچانک گولہ بارود کی زد میں آکر تباہ ہوا۔"

کیا جنگ بندی میں امریکہ، سعودی عرب اور یو اے ای نے کوئی کردار ادا کیا؟

جنگ بندی کے معاہدے کی تجدید کے اعلان کے فوری بعد یہ خبریں آنے لگی تھیں کہ پاکستان اور بھارت سرحد پر تناؤ کو کم کرنے کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے سفارتی سطح پر کی گئی کوششوں کے نتیجے میں اقدامات اٹھانے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔

اگرچہ اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں کا اصرار تھا کہ اس میں کسی تیسرے ملک کا کوئی عمل دخل نہیں رہا ہے ۔ تاہم متحدہ عرب امارات نے معاہدے کی تجدید کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس میں اپنے کردار کا یہ کہہ کر عندیہ دیا تھا کہ اس کے دونوں ممالک کے ساتھ''قریبی تاریخی تعلقات'' ہیں جو توجہ سے محروم نہیں رہے۔

بعض مبصرین نے اسے متحدہ عرب امارات کے کردار کی بالواسطہ تصدیق قرار دیا تھا۔

ادھر صحافیوں کے استفسار پر امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ''ہم بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر اور دیگر تشویش والے معاملات پر براہ راست مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم ضرور ایل او سی پر تناؤ کم کرنے اور 2003 کی جنگ بندی پر واپس جانے کا کہتے ہیں۔''

بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لداخ میں چین اور بھارت کی افواج کے درمیان جھڑپوں کے نتیجےمیں فریقین کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے پیش نظر امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ کشمیر میں بھارت اورپاکستان کی سرحدوں پر فعال دشمنی برقرار رہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ کو خدشہ تھا کہ اگر اس میں شدت آجاتی ہے تو چین جسے پاکستان اپنا سب سے پُر اعتماد اورمخلص اتحادی سمجھتا ہے، اس ساری صورتِ حال کوبھارت پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔

جنگ بندی میں کارفرما داخلی اور خارجی عوامل

تجزیہ کار اور یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ مئی اور جون 2020 میں لداخ اور سکم میں بھارت اور چین کی افواج کے درمیان ہونے والا تصادم ، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال اور فوجی اہمیت کے معاملات کا ایل او سی پر جنگ بندی کے معاہدے کی تجدید کے لیے نئی دہلی کے نزدیک ضرور ایک عنصر رہا ہو۔

لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں چاہتے تھے کہ ایل او سی اور جموں سیالکوٹ سرحد پر آئے دن ہونے والی جھڑپوں پر روک لگ جائے کیوں کہ اس کے نتیجے میں نہ صرف مقابل افواج جانی و مالی نقصان اٹھا رہی تھی بلکہ عام شہریوں کو اس کا خمیازہ اٹھانا پڑ رہا تھا جو نریندر مودی اور عمران خان کی حکومتوں کے لیے کئی لحاظ سے اچھا نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ"کشمیر کی سرحدوں پر آئے دن گولہ باری اور فائرنگ کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کی حکومتوں کو مقامی، ملکی اور بین الاقوامی سطحوں پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ اس کے علاوہ سرحدوں پر اس فعال دشمنی پر آنے والا خرچہ دونوں ملکوں کی معیشت کو مزید کمزرو کررہا تھا اور یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ دونوں ملکوں کے اقتصادی حالات کچھ اچھے نہیں ہیں۔''

پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا نے مزید کہا کہ"دونوں ملکوں کی حکومتیں آپسی تعلقات کو بہتر بنانے اور دو طرفہ مسائل حل کرنے کے لی جامع مذاکرات کو بھی بحال کرلیتی لیکن نئی دہلی اور اسلام آباد میں حکمران جماعتوں کی بعض سیاسی مجبوریاں اور ووٹ سیاست اس ممکنہ عمل میں آڑے آرہی ہیں۔"

البتہ ارون جوشی کے مطابق "خوشی اس بات کی ہے کہ دونوں ملکوں میں آپسی تعلقات بالخصوص تجارتی روابط کو بحال کرنے کے لیے آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ ایل او سی پر جنگ بندی کےبرقراررہنے کو اعتماد سازی کے اقدام کے طور پردیکھا جاسکتا ہے اور یہ بات کو آگے بڑھانے اورپاکستان اور بھارت کے تعلقات میں ایک مثبت کردار اداکرنے کا موجب بن سکتا ہے۔''

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG