ہندوستان کی تحریکِ آزادی سے جڑے لندن کے تاریخی 'انڈیا کلب' کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہونے جا رہے ہیں جس کے ساتھ تاریخ کا ایک باب بھی بند ہو جائے گا۔
سینٹرل لندن میں تھیٹرز، ریستوران اور بارز کے درمیان قائم 'انڈیا کلب' کو بھارت سے آنے والے اور برطانیہ میں بسنے والے بھارتیوں کا گھر سے دور گھر کہا جاتا تھا۔
روایتی ہندوستانی کھانوں اور انڈیا کلب کی تاریخی عمارت کی وجہ سے یہاں برِصغیر سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ کئی مقامی افراد بھی ذوق و شوق سے آیا کرتے تھے۔
انڈیا کلب 1952 میں ایک ریستوران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ اس سے پہلے یہ ہندوستان کی برطانوی نو آدیاتی حکومت کے مظالم اور آزادی کی تحریک چلانے والی انڈین لیگ کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔
انڈین لیگ بنیادی طور پر کامن ویلتھ لیگ سے جنم لینے والی ایک تنظیم تھی۔ اس تنظیم کا قیام 1922 میں عمل میں آیا تھا۔
اپنے قیام کے وقت یہ تنظیم ہندوستان کو برطانیہ کی ایک ماتحت ریاست کے طور پر حقوق دلانے کے لیے سرگرم تھی۔ لیکن 1930 میں جب کرشنا مینن اس کے سیکریٹری بنے تو انہوں نے انڈیا لیگ کی سرگرمیوں کا رُخ تبدیل کردیا۔
انہوں نے لیگ کو ماتحت ریاست کے حقوق کے بجائے برطانیہ سے ہندوستان کی مکمل آزادی کا علم بردار بنایا۔
کرشنا مینن 1924 میں قانون کی تعلیم کے لیے لندن آئے تھے۔ وہ انڈیا لیگ کا حصہ بنے اور انہوں نے لیگ کو برطانیہ سے مکمل آزادی کے مطالبے کے لیے متحرک کیا۔
سن1947 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد کرشنا مینن برطانیہ میں بھارت کے ہائی کمشنر رہے۔ وہ بھارت کے وزیرِ دفاع بھی رہے۔ انہیں پنڈت نہرو کے بعد ملک کا سب سے طاقت ور لیڈر تصور کیا جاتا تھا۔
انڈیا لیگ میں زیاہ تر برطانیہ میں رہنے والے ایسے ہندوستانی شامل تھے جو اشرافیہ میں شمار ہوتے تھے۔ اس لیگ نے صحافیوں، سیاست دانوں، طلبہ یونینز اور دیگر شعبوں میں ہندوستان کو برطانوی حکومت کی جانب سے درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔ اس کے لیے انڈیا لیگ نے طلبہ اور خواتین وغیرہ کی الگ الگ کمیٹیاں بھی تشکیل دیں۔
بھارت کے قیام کے بعد انڈیا لیگ نے سینٹرل لندن کی ایک چھ منزلہ عمارت کی دوسری منزل پر انڈیا کلب قائم کیا۔ اس کلب میں بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو، ان کی بیٹی اندرا گاندھی، لیڈی ماؤنٹ بیٹن، برطانیہ کے پہلے ہندوستانی نژاد رکن پارلیمنٹ دادا بھائی نوروجی، معروف فلسفی بریٹںڈ رسل سمیت کئی تاریخی شخصیات آئیں اور ان میں سے کئی کی یاد گار تصاویر کلب کی دیواروں کی زینت رہی۔
سن 1952 میں یہاں بھارتی پکوان بھی پیش کیے جانے لگے جس کے بعد مسالہ دھوسا, روغن جوش اور بریانی جیسی ڈشز بھی انڈیا کلب کی شناخت کا حصہ بنتے چلے گئے۔
انڈیا کلب جس عمارت میں قائم ہے اس کے مالکان نے وہاں موجود ہوٹل کی توسیع اور اسے جدید انداز کی عمارت میں بدلنے کا منصوبہ بنایا جس کے بعد کلب کو برقرار رکھنے کے لیے 2018 میں 2600 افراد کے دستخط کے ساتھ ایک اپیل جاری کی گئی۔
اس اپیل کے بعد اسٹرینڈ ہوٹل کی توسیع اور تزئین نو کا کام کچھ برسوں کے لیے رک گیا لیکن بالآخر رواں برس عمارت کی مالک کمپنی نے اس بارے میں حتمی فیصلہ کرلیا اور کلب کے مینیجر نے 17 ستمبر 2023 سے اس کی بندش کا اعلان کردیا۔
انڈیا کلب کی بندش پر بھارت کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں کہا کہ انڈیا کلب کی مستقل بندش کے بارے میں سن کر افسردہ ہوں۔
ان کا کہنا تھاکہ یہ کلب کتنے ہی طلبہ، صحافیوں اور مسافروں کے لیے اپنے گھر سے دور گھر تھا جہاں مناسب نرخ پر روایتی انڈین کھانا مل جاتا تھا اور نئے دوست بنانے کے مواقع بھی ملتے تھے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے بات کرتے ہوئے انڈیا کلب کی موجودہ مینیجر فیروزہ مارکر نے کہا کہ انڈین کلب کے آخری ہفتے کے دوران یہاں بہت گہماگہمی رہی۔
ان کا کہنا ہے کہ اب وہ کلب کے لیے نئی عمارت کی تلاش کررہی ہیں جو اس کے روایتی فرنیچر سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ کلب کے پرانے مناظر سے قریب تر بھی ہو۔
اس تحریر کے لیے بعض معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔
فورم