پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ امن و امان اور سرحدی صورتِ حال کے باعث عام انتخابات التوا کا شکار نہیں ہوں گے۔
وائس آف امریکہ کے علی فرقان کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان کو اگرچہ مغربی اور مشرقی محاذ پر خطرات کا سامنا ضرور ہے لیکن یقین ہے کہ بیک وقت سرحدی خطرات پر بھی قابو پائیں گے اور انتخابی عمل بھی بلا رکاوٹ مکمل کرائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر سیکیورٹی خطرات کے بڑھنے سے اس کے مؤثر جواب کے لیے ضروریات بھی بڑھ گئی ہیں تاہم انتخابات کے انعقاد پر اس کے اثرات نہیں ہونے دیں گے۔
نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ انتخابی عمل الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے اور نگراں حکومت انتخابات میں التواء کے لیے کوئی جواز سامنے نہیں لائے گی۔البتہ حکومت کا کام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہے جس کے لیے مکمل تیار ہیں۔
پاکستان میں قومی اسمبلی کی تحلیل کو ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا ہے اور سیاسی جماعتیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ انتخابات کے دن کا تعین کیا جائے۔
انوار الحق کاکڑ نے اس تاثر کی تردید کی کہ نگراں حکومت انتخابات کی تیاری کے عمل میں اقدامات نہیں لے رہی۔
انتخابات میں التواء کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام اور قیاس آرائیوں پر بات کرتے ہوئے نگراں وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ انتخابات سے متعلق قیاس آرائیوں کو ختم کرنا نگراں حکومت کا کام نہیں کیوں کہ انتخابات کا انعقاد آئینی طور پر الیکشن کمیشن کا کام ہے۔
'عمران خان کو سیاست سے باہر نہیں کیا جارہا'
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو قانونی مقدمات کے ذریعے سیاست سے باہر کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ عمران خان پر عائد مقدمات میں عدالتی عمل شفاف ہوگا تاکہ ان کے چاہنے والوں اور مبصرین سب کو نظر آئے کہ یہ سیاست سے دور کرنے کا عمل نہیں بلکہ ملک کا قانون اپنی راہ لینا چاہتا ہے۔
نگران حکومت کے فوج کا سویلین چہرہ ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ تاثر ماضی کی زیادہ تر حکومتوں کے متعلق دیا جاتا رہا ہے اور اسی بنا پر 2018 کے انتخابات کے بعد عمران خان کو سیلیکٹڈ کہا گیا اور پھر پی ڈی ایم کی حکومت کے آنے پر بھی یہی الزام لگایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت آئینی عمل کے تسلسل کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے اتفاق رائے کے نتیجے میں آئی ہے۔
'دفاع کے لیے جہاں ضروری سمجھا ایکشن لیں گے'
نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد پر سیکیورٹی کے خطرات کا سامنا ہے اور دوحہ امن معاہدے میں طالبان نے دنیا کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کی سرزمین کسی دوسرے کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو حق دفاع حاصل ہے اور اپنے لوگوں اور سرزمین کے دفاع کے لیے جہاں سمجھیں گے ضرور ایکشن لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس تفصیل میں جائے بغیر کہ کون سے آپریشنل فیصلے پاکستان لے سکتا ہے یہ ضرور کہوں گا کہ جو خطرہ سامنے آئے گا اس کے مطابق فیصلے لیں گے اور عمل سے نظر آ جائے گا کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیا کر سکتے ہیں۔
انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ یہ درست نہیں ہے کہ افغان طالبان پاکستان کی بات نہیں سن رہے اور نہ ہی اسلام آباد کابل حکومت کے سامنے بہت مخصوص مطالبات رکھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان اس بات پر قائل ہیں کہ ان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ایسا کیوں نہیں ہو پا رہا ہے اس حوالے سے پاکستان طالبان سے بات چیت کررہا ہے کہ وہ کیا کردار چاہتا ہے۔
'طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کررہے'
انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔البتہ کابل کا نظام حکومت طالبان کے پاس ہے تو ریاستی امور کے سلسلے میں ان سے ہی بات کرنا ہو گی۔
چین کی جانب سے طالبان کی حکومت کو باضابطہ تسلیم کرنے کے سوال پر انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے بیجنگ کا یہ اپنا فیصلہ ہے اور اس حوالے سے ایک آزاد ملک کے فیصلے پر سوال اٹھانا سفارتی لحاظ سے مناسب نہیں۔
اس سوال پر کہ افغانستان کے حوالے سے خطے کے ممالک کی مشترکہ حکمتِ عملی کارگر نہیں ہوسکی ہے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ اشتراک مختلف نکات پر ہے اور افغانستان کے حوالے سے بہت سے معاملات میں خطے کے ممالک میں مشترکہ حکمتِ عملی اس وقت بھی موجود ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی تجارت باقاعدگی سے جاری ہے البتہ غیر قانونی ٹرانزٹ ٹریڈ اور اسمگلنگ کے خلاف کارروائی ضرور کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ عرصے میں افغانستان کے ساتھ پاکستان کی تجارت میں بہتری آئی ہے اور افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک تک تجارت میں بھی بہتری آنے جا رہی ہے۔
خارجہ پالیسی
انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ پاکستان کے مشرق وسطی کے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات ماضی کی طرح استوار ہیں اور وہ اس تاثر کے قائل نہیں کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں بدلتے حالات کے تحت ممالک اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے کسی بلاک کے قریب آ رہے ہیں اور کچھ اختلافات کے باعث دور ہوتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مشرق وسطی ممالک اپنی ہائیڈرو کاربن کی برآمد کے لیے ڈیڑھ ارب آبادی والے چین کو چھوڑ کر ایک ایسی راہداری کی طرف نہیں جائیں گے جس کا خیالی تصور پیش کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ رواں ماہ مئی میں دہلی میں ہونے والی جی 20 سربراہی کانفرنس میں بھارت، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے درمیان راہداری منصوبے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
'امریکہ کا چھوڑا گیا اسلحہ پاکستان کے لیے بڑا چیلنج بن گیا ہے'
نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان کے اپنے خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کے اپنے تقاضے ہیں ساتھ ساتھ مغرب کے ساتھ سات دہائیوں کا جڑا ہوا تاریخی تعلق ہے جس کی نوعیت آئندہ دہائیوں میں بھی برقرار رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے تمام طاقتوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور اس حوالے سے اسلام آباد اور واشنگٹن میں اشتراک اور مشترکہ نکات پائے جاتے ہیں۔
افغانستان میں امریکی اسلحہ چھوڑے جانے کے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ تاثر کہ امریکہ کسی سازش کے تحت افغانستان میں اسلحہ چھوڑ کر خطے سے چلا گیا، درست نہیں ہے اور نہ ہی ان کے دیے گئے بیان کا یہ مقصد تھا۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ ان کے بیان کا مقصد یہ نشاندہی کرنا تھا کہ امریکی ساختہ چھوٹے جنگی ہتھیار نہ صرف بلیک مارکیٹ میں مشرق وسطی اور وسط ایشیامیں فروخت ہورہے ہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیمیں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اس اسلحہ کا استعمال کررہے ہیں جو کہ پاکستان کے لیے اسٹرٹیجکل اور ٹیٹیکل چیلنج ہے۔
'کشمیر کا پاکستان کے حالات سے موازنہ درست نہیں'
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سب سے پرانے ایجنڈا آئٹم میں شامل ہے جس سے دنیا انکار نہیں کرسکتی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے اپنے حالیہ اقدامات سے وادی کو ایک قید خانے میں تبدیل کررکھا ہے اور کشمیریوں کی آواز باقی ماندہ بھارت کے لوگوں اور دنیا تک نہیں پہنچ رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے دنیا کی نظریں چرانا چاہتا ہے لیکن پاکستان اقوام عالم کے ہر فورم پر کشمیر کا مقدمہ لڑتا رہے گا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر بات کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان کی صورتِ حال کا کشمیر سے موازنہ کرنا درست نہیں کیوں کہ ان کے بقول، کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں بھارتی افواج آزادی کی تحریک کو دبا رہے ہیں جب کہ پاکستان ایک تسلیم شدہ آزاد ریاست ہے جسے اپنے قوانین بنانے کا حق حاصل ہے۔
ملک میں آزادی صحافت پر بات کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان آزادیٔ صحافت کی درجہ بندی میں خطے میں سب سے بہتر نہیں تو نسبتاً بہتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انسانی حقوق، حکومتی و ریاستی اداروں کے کردار سمیت کوئی ایسا معاملہ نہیں جس پر آواز نہ اٹھائی جاسکے یا اس پر میڈیا میں گفتگو نہ کی جا رہی ہو۔
فورم