سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ انصاف کی جلد فراہمی کے لیے ضلع عدالتوں میں ججوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ ملک میں بسنے والے تمام افراد کو بلا امتیاز انصاف کی فراہمی اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔
عدالتی قوانین کے موثر نفاذ اور انصاف کی جلد فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے سفارشات مرتب کرنے والے اعلیٰ سطحی لا اینڈ جسٹس کمیشن کے ہفتہ کے روز اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس سے خطاب میں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ شہریوں کو انصاف کی جلد فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے ذیلی عدالتوں میں ججوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔
’’ضلعی سطح پر عدالتوں میں ججوں کی تعداد بڑھانے سے زیرالتواء مقدمات کو جلد نمٹانے میں بھی مدد ملے گی۔‘‘
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ عدالتوں سے رجوع کرنے والے سائلین کو انصاف کی جلد فراہمی کے لیے لا اینڈ جسٹس کمیشن کئی سفارشات کی منظوری دے چکا ہے جن میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے یہ بھی کہا گیا کہ ذیلی عدالتوں میں ججوں اور عدالتی عملے کی تعداد بڑھائی جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق قوانین میں ترامیم بھی ضروری ہیں۔
سابق وزیر قانون اور معروف وکیل ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں ضلعی عدالتوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور ان میں ججوں اور قابل عدالتی عملے کی تعداد بڑھانے سے مقدمات کو جلد نمٹانے میں مدد ملے گی۔
’’عدالتوں میں مقدمات کے اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو 90 فیصد مقدمات ایسے ہیں جو ذیلی عدالتوں میں رہ جاتے ہیں، بڑی مشکل سے 10 فیصد میں سے کچھ ہائی کورٹ تک جاتے ہیں اور ان میں سے بہت کم سپریم کورٹ تک جاتے ہیں۔ اس سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہماری شہریوں کی مشکلات کا ازالہ اگر کہیں ہو سکتا ہے تو وہ ذیلی عدالتیں ہی ہیں۔‘‘
عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ پرانے مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے 2009ء کے وسط میں میں قومی جوڈیشل پالیسی کا اعلان کیا گیا تھا جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کہہ چکے ہیں کہ ججوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے دوران ملازمت ان کی تربیت کا عمل بھی جاری ہے تاکہ وہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو بہتر انداز میں سر انجام دے سکیں۔