کراچی —
شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر لمبی لمبی تقریروں کی پریکٹس کرنے والی26 سالہ ثانیہ ناز کو بہت لمبا سفر طے کرنا ہے۔ وہ کراچی میں واقع غریبوں کی ایک بستی لیاری میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس علاقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے والی وہ پہلی خاتون امیدوار ہیں۔
نسل در نسل منتقل ہونے والے پاکستانی سیاسی کلچر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ثانیہ ناز کا کہنا ہے، ”بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ میں مرحوم رفیق انجینئر کی بیٹی ہوں لیکن میں کہتی ہوں میں ’لیاری کی بیٹی‘ ہوں"۔
کراچی کی قدیم بستی لیاری روایتی طور پر پیپلز پارٹی کا گڑھ رہی ہے۔ بدلتے حالات کے باوجود آج بھی یہاں پیپلز پارٹی کو بہت مقبولیت حاصل ہے۔
آٹھ چوک کے دو کمروں پر مشتمل مکان میں آنکھ کھولنے والی ثانیہ نے شروع ہی سے اپنے والد کو دن میں کراچی پورٹ ٹرسٹ میں کینٹین چلاتے اور راتوں کو کیرم بورڈ بناکر زندگی کی گاڑی چلاتے دیکھا ہے۔ مشکلات اور غربت کے باوجود اس کے والد کا خواب تھا کہ ان کی چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا تعلیم حاصل کرلیں مگرثانیہ کے علاوہ کوئی ان کی یہ خواہش پوری نہ کرپایا۔
انگریزی اخبار ’ڈان‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری کالج سے انٹرمیڈیٹ کرنے والی ثانیہ نے آٹھ سال کی عمر سے ہی فلاحی کاموں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ وہ اسکول جانے سے پہلے گلی کے بچوں کو پڑھاتی تھیں ۔
اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے مختلف فلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینا شروع کردیا۔ وہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی نگراں پروین رحمن کے ساتھ بھی کام کرچکی ہیں۔
ثانیہ کی زندگی صرف فلاحی کاموں تک ہی محدود نہیں بلکہ کئی صلاحتیوں کی مالک ثانیہ کا ایک روپ اور بھی ہے۔ وہ بلوچی لوک داستان ”بیبارو گرناز“ پر بننے والی ٹیلی فلم میں مرکزی کرداربھی ادا کرچکی ہیں جو ’وش‘ ٹی وی چینل سے نشر ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ وہ شیما کرمانی کے طائفے میں بھی پرفارم کرچکی ہیں۔
سیاست میں قدم رکھنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ثانیہ کا لہجہ پرجوش ہو جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ”بچپن سے گھرکے اکلوتے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خیالی مجمع کے سامنے تقریریں کرتی تھی اور لیاری کی ہرلڑکی کی طرح بڑے ہو کربے نظیربھٹو بننے کے خواب دیکھتی تھی۔ میں نے بے نظیر کو کبھی نہیں دیکھا بس ان کے قافلے کو گزرتے دیکھا تھا“
ثانیہ کا کہنا ہے کہ انہیں پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ملنے کا سہرا پیپلز امن کمیٹی کے عذیر بلوچ کے سر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عذیر بھائی نہ ہوتے تو ایسا ہونا ممکن نہیں تھا۔ عذیر بھائی کی ہمت افزائی اور سپورٹ سے ہی انتخابات میں حصہ لینا ممکن ہوا۔ اب جب حقیقت میں مجمع میں تقریر کرنا پڑی تو ساری رات سو نہ سکی کہ لیاری کے عوام کی امیدیں پوری کرپاوٴں گی یا نہیں۔ اگر منتخب ہوئی تو تعلیم عام کرنا اولین ترجیح ہو گی اور ایسا میں اپنے علاقے میں اپنے لوگوں کے درمیان رہ کر ہی کرپاوٴں گی۔
”ڈان “ کے مطابق پیپلز پارٹی کے رفیق انجینئر کی وفات اور نبیل گبول کے پارٹی چھوڑ جانے کے بعد لیاری میں پیپلز پارٹی نے پانچ نشستوں پر امیدواروں کے ناموں کا اعلان کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے رہنما عذیر بلوچ کے مشورے سے کیا جو لیاری میں ہونے والے آپریشنز کے بعد فیصلہ کن طاقت کے طور پر ابھرے ہیں۔ آپریشن سے ناخوش لیاری کے عوام کا جھکاوٴ عذیر بلوچ کی جانب ہوگیا جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو عذیر بلوچ سے مشاورت کرنا پڑی۔
پیپلز پارٹی کے پانچ امیدواروں میں جاوید ناگوری (پی ایس108)، عدنان بلوچ (پی ایس111)، یوسف ناز (پی ایس110)، شاہجہاں بلوچ (این اے248)اور ثانیہ ناز (پی ایس 109) شامل ہیں۔
ثانیہ ناز انتخابات جتیی ہیں تو یہ نہ صرف ان کے خاندان کے لئے بلکہ لیاری کے رہنے والوں کے لئے بھی یہ یادگار لمحہ ہوگا کیونکہ ورکنگ کلاس سے کسی عام خاتون کا منتخب ہونا واقعی قابل ذکر کارنامہ ہوگا۔
نسل در نسل منتقل ہونے والے پاکستانی سیاسی کلچر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ثانیہ ناز کا کہنا ہے، ”بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ میں مرحوم رفیق انجینئر کی بیٹی ہوں لیکن میں کہتی ہوں میں ’لیاری کی بیٹی‘ ہوں"۔
کراچی کی قدیم بستی لیاری روایتی طور پر پیپلز پارٹی کا گڑھ رہی ہے۔ بدلتے حالات کے باوجود آج بھی یہاں پیپلز پارٹی کو بہت مقبولیت حاصل ہے۔
آٹھ چوک کے دو کمروں پر مشتمل مکان میں آنکھ کھولنے والی ثانیہ نے شروع ہی سے اپنے والد کو دن میں کراچی پورٹ ٹرسٹ میں کینٹین چلاتے اور راتوں کو کیرم بورڈ بناکر زندگی کی گاڑی چلاتے دیکھا ہے۔ مشکلات اور غربت کے باوجود اس کے والد کا خواب تھا کہ ان کی چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا تعلیم حاصل کرلیں مگرثانیہ کے علاوہ کوئی ان کی یہ خواہش پوری نہ کرپایا۔
انگریزی اخبار ’ڈان‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری کالج سے انٹرمیڈیٹ کرنے والی ثانیہ نے آٹھ سال کی عمر سے ہی فلاحی کاموں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ وہ اسکول جانے سے پہلے گلی کے بچوں کو پڑھاتی تھیں ۔
اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے مختلف فلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینا شروع کردیا۔ وہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی نگراں پروین رحمن کے ساتھ بھی کام کرچکی ہیں۔
ثانیہ کی زندگی صرف فلاحی کاموں تک ہی محدود نہیں بلکہ کئی صلاحتیوں کی مالک ثانیہ کا ایک روپ اور بھی ہے۔ وہ بلوچی لوک داستان ”بیبارو گرناز“ پر بننے والی ٹیلی فلم میں مرکزی کرداربھی ادا کرچکی ہیں جو ’وش‘ ٹی وی چینل سے نشر ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ وہ شیما کرمانی کے طائفے میں بھی پرفارم کرچکی ہیں۔
سیاست میں قدم رکھنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ثانیہ کا لہجہ پرجوش ہو جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ”بچپن سے گھرکے اکلوتے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خیالی مجمع کے سامنے تقریریں کرتی تھی اور لیاری کی ہرلڑکی کی طرح بڑے ہو کربے نظیربھٹو بننے کے خواب دیکھتی تھی۔ میں نے بے نظیر کو کبھی نہیں دیکھا بس ان کے قافلے کو گزرتے دیکھا تھا“
ثانیہ کا کہنا ہے کہ انہیں پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ملنے کا سہرا پیپلز امن کمیٹی کے عذیر بلوچ کے سر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عذیر بھائی نہ ہوتے تو ایسا ہونا ممکن نہیں تھا۔ عذیر بھائی کی ہمت افزائی اور سپورٹ سے ہی انتخابات میں حصہ لینا ممکن ہوا۔ اب جب حقیقت میں مجمع میں تقریر کرنا پڑی تو ساری رات سو نہ سکی کہ لیاری کے عوام کی امیدیں پوری کرپاوٴں گی یا نہیں۔ اگر منتخب ہوئی تو تعلیم عام کرنا اولین ترجیح ہو گی اور ایسا میں اپنے علاقے میں اپنے لوگوں کے درمیان رہ کر ہی کرپاوٴں گی۔
”ڈان “ کے مطابق پیپلز پارٹی کے رفیق انجینئر کی وفات اور نبیل گبول کے پارٹی چھوڑ جانے کے بعد لیاری میں پیپلز پارٹی نے پانچ نشستوں پر امیدواروں کے ناموں کا اعلان کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے رہنما عذیر بلوچ کے مشورے سے کیا جو لیاری میں ہونے والے آپریشنز کے بعد فیصلہ کن طاقت کے طور پر ابھرے ہیں۔ آپریشن سے ناخوش لیاری کے عوام کا جھکاوٴ عذیر بلوچ کی جانب ہوگیا جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو عذیر بلوچ سے مشاورت کرنا پڑی۔
پیپلز پارٹی کے پانچ امیدواروں میں جاوید ناگوری (پی ایس108)، عدنان بلوچ (پی ایس111)، یوسف ناز (پی ایس110)، شاہجہاں بلوچ (این اے248)اور ثانیہ ناز (پی ایس 109) شامل ہیں۔
ثانیہ ناز انتخابات جتیی ہیں تو یہ نہ صرف ان کے خاندان کے لئے بلکہ لیاری کے رہنے والوں کے لئے بھی یہ یادگار لمحہ ہوگا کیونکہ ورکنگ کلاس سے کسی عام خاتون کا منتخب ہونا واقعی قابل ذکر کارنامہ ہوگا۔