ہفتےکےروز لیبیا کا دارالحکومت طرابلس دھماکوں اور بھاری ہتھیاروں کی فائرنگ سے ہل کر رہ گیا ۔ جب کہ لیبیا کی حکومت نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ باغی دارالحکومت کی طرف پیش قدمی کر رہےہیں۔ طرابلس اب لیبیا کےصدر معمر قذافی کا آخری اہم گڑھ ہے ۔
سرکاری ترجمان موسیٰ ابراہیم نے کہا کہ مسلح باغیوں کے چھوٹے چھوٹے گروپس شہر میں گھس آئے تھے لیکن ان سے نمٹ لیا گیا ہے اور یہ کہ شہر میں اب سکون ہے۔
طرابلس میں لڑائی کی خبریں باغیوں کی جانب سے مبینہ طور پر دو اہم قصبوں، مغرب میں زاویہ اور مشرق میں بریقہ پرقبضے کے دعوؤں کے بعد سامنےآئیں ۔
زاویہ میں باغیوں نے کہا کہ اب وہ ان مورچوں پر قابض ہیں جو اس سے قبل قذافی کی حامی فورسز کے قبضے میں تھے ۔ اب لیبیا کے صدر کی وفادار فورسز مشرق سے شہر پر گولہ باری جاری رکھے ہوئے ہیں۔
باغیوں کے ایک سینیئر کمانڈر نے ہفتے کے روز کہا کہ بریقہ کے صنعتی سیکٹر پر، جس میں تیل کی ایک بڑی ریفائنری بھی شامل ہے، قبضے کے بعد اس کے جنگجووں کا اس مشرقی قصبے پر مکمل کنٹرول ہے ۔ تاہم اس دعوی کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ۔
لڑائی سرحد پار تیونس تک میں پھیل گئی ہے جہاں جمعے کی رات تیونس کے فوجیوں اور ہتھیاروں کےساتھ موٹر گاڑیوں میں سفر کرنے والے لیبیا کے شہریوں کے ایک گروپ کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں ۔